پاکستان میں انتخابات پر عالمی تحفظات؛ 'اس مرتبہ دھاندلی کے الزامات کی شدت زیادہ ہے'

پاکستان میں عام انتخابات کے بعد جہاں دھاندلی اور نتائج تبدیل کیے جانے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں تو وہیں عالمی برادری کی جانب سے بھی الیکشن کی شفافیت پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کو آٹھ فروری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنانا چاہیے۔

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کی آزادانہ تحقیقات بھی ہونی چاہئیں۔

امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران ’لیول پلیئنگ فیلڈ کے فقدان‘ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ قابلِ اعتماد بین الاقوامی اور مقامی انتخابی مبصرین کے جائزے سے متفق ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں اظہارِ رائے، تنظیم سازی اور پرامن اجتماع کی آزادی پر غیر ضروری پابندیاں لگائی گئیں۔

پاکستان میں عام انتخابات پر امریکہ، برطانیہ، اقوامِ متحدہ کے ردِعمل پر ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا تھا کہ پاکستان نے عام انتخابات پرامن اور کامیابی کے ساتھ منعقد کیے۔

انہوں نے کہا کہ عام انتخابات سے متعلق بعض ممالک اور تنظیموں کے بیانات کو دیکھا ہے، انتخابی مشق نے ظاہر کیا ہے کہ بہت سے مبصرین کے خدشات غلط تھے۔

اگرچہ پاکستان نے الیکشن کے حوالے سے عالمی خدشات کو مسترد کیا ہے تاہم سیاسی جماعتیں اس معاملے پر مسلسل آواز اٹھا رہی ہیں اور مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے عدالت اور دیگر متعلقہ فورم سے رجوع کر رہی ہیں۔

SEE ALSO:

وزارتِ عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ووٹ دیں گے: بلاول بھٹو زرداریپی ٹی آئی کا ایم ڈبلیو ایم اور جماعتِ اسلامی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا اعلان امریکہ: ٹرمپ کی انتخابی مداخلت کے مقدمے کی سماعت مزید مؤخر کرنے کی اپیل

پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تاریخ بہت پرانی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا الیکشن ہو جس میں ہارنے والی جماعت نے دھاندلی کے الزامات نہ عائد کیے ہوں۔

'تشویش اپنی جگہ لیکن کوئی اقوامِ متحدہ سے تحقیقات کا نہیں کہہ رہا'

مبصرین کے مطابق الیکشن سے متعلق عالمی تحفظات مقامی سطح پر اُٹھنے والی آوازوں کا عکس ہیں۔

سیاسی مبصر اور تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ عالمی سطح پر الیکشن کے حوالے سے جو تشویش ظاہر کی جا رہی ہے وہ بنیادی طور پر ان آوازوں کی بنیاد پر ہی ہے جو پاکستان سے آ رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر الیکشن کے حوالے سے آنے والے بیانات ماضی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ عالمی اداروں اور ممالک کی جانب سے الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کا کہا گیا ہے جو کہ مقامی اداروں کی جانب سے ہی کروائی جا سکیں گی۔

عائشہ صدیقہ کے بقول پاکستان کے الیکشن پر تشویش ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ عالمی اداروں کو آکر اس دھاندلی کی تحقیقات کرنی چاہئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی ملک یا ادارہ اقوامِ متحدہ سے الیکشن کی شفافیت کی تحقیقات کا کہتا تو یہ ماضی سے مختلف اور بڑی بات ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی اداروں میں وہ سکت نہیں ہے کہ وہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کر سکیں اور نگراں حکومت تو ویسے ہی الیکشن کے بعد اپنی حیثیت کھو چکی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

’جیتی تو پی ٹی آئی ہے مگر حکومت ن لیگ کی بنے گی‘

یاد رہے کہ پیر کو نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے انتخابات کے بعد اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ کسی ملک کے کہنے پر انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات نہیں کریں گے۔

'اس مرتبہ دھاندلی کے الزامات کی شدت زیادہ ہے'

انتخابات کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'پتن' کے سربراہ سرور باری کہتے ہیں کہ پاکستان میں ماضی کے الیکشن میں بھی دھاندلی کے الزامات اٹھتے رہے ہیں لیکن اب کی بار ان کی شدت اور نوعیت زیادہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں الیکشن پر تحفظات ضرور ظاہر کیے جاتے رہے ہیں. لیکن اب یہ تشویش مذمت میں بدل گئی ہے۔

اُن کے بقول یورپی یونین اور دیگر ادارے الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سرور باری کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر الیکشن میں تحقیقات کے مطالبات کے بعد اگر الیکشن کمیشن، عدلیہ اور اداروں کی جانب سے تحقیقات نہیں کی جاتیں تو دنیا میں انتخابی تنائج کا دفاع نہیں کیا جا سکے گا۔

'نگراں حکومت کے پاس تحقیقات کا مینڈیٹ نہیں ہے'

نگراں وزیر اعظم کے اس بیان پر کہ وہ کسی اور ملک کے مطالبے پر الیکشن میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات نہیں کریں گے۔ سرور باری نے کہا کہ انتخابات کے بعد نگراں وزیر اعظم کی حیثیت نہیں رہی کہ وہ الیکشن کے حوالے سے تحقیقات کرا سکیں۔

عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ مقامی سطح پر جو دھاندلی کا شور اٹھایا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے گا جب کہ شفافیت پر جو سوال اُٹھائے جا رہے ہیں، اس کی وجہ سے حکومت کو خوش گوار ماحول میسر نہیں آئے گا۔

اُن کے بقول اگر ملک میں الیکشن کے نتائج کو لے کر ہنگامے نہیں ہوتے اور حالات قابو میں رہتے ہیں تو نئی حکومت صورتِ حال کو سنبھالنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ اس کے باوجود غیر ملکی سرمایہ کاری اور ملکی اثاثوں کی نج کاری میں مشکلات آئیں گی۔

سرور باری نے کہا کہ الیکشن کے نتیجے میں بہت سیاسی ٹوٹ ٹوٹ پھوٹ ہو گئی ہے کیوں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی رائے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جس قسم کی مخلوط حکومت بننے جا رہی ہے عالمی برادری اور سول سوسائٹی اسے زیادہ اہمیت نہیں دے گی اور نہ ہی سیاسی استحکام لایا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ انتخابی نتائج کو دیکھتے ہوئے ملک میں سیاسی استحکام اسی صورت آسکتا ہے کہ ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے جس میں تمام جماعتیں شامل ہوں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ عمران خان ایسی کسی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے اور استحکام نہیں ہو گا تو ملک ترقی نہیں کر سکتا۔