پاکستان میں حقوقِ نسواں کے تحفظ پر زور

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سماجی اداروں پر مشتمل انسانی حقوق اتحاد کے زیر اہتمام ایک تقریب

خواتین کے خلاف تشدد کے عالمی دن کے موقع پر حقوق نسواں کی تنظیموں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے والی متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں کی ذاتی شناخت کو خفیہ رکھا جائے۔
خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر پیر کو پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پر منعقدہ تقاریب میں خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ قوانین کے موثر نفاذ کے عزم کو دہرایا گیا۔

وفاقی دارالحکومت میں 60 سماجی اداروں پر مشتمل انسانی حقوق اتحاد کے زیر اہتمام ایک تقریب میں شامل حقوق نسواں کے سرگرم کارکنوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے قائم ’قومی کمیشن برائے وقار نسواں‘ کو مزید موثر بنایا جائے تاکہ اُس کے ذریعے عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے اقدامات اور اُن کی موثر نگرانی کی جا سکے۔

حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ خواتین کو اُن کے دفاتر میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی جو شکایات وفاقی متحسب کے دفتر میں جمع کروائی گئی ہیں اُن میں سے زیادہ تعداد اُن عورتوں کی تھی جو سرکاری محکموں میں کام کرتی ہیں۔

وفاقی متحسب کے دفتر کے مطابق زیادہ تر شکایات درج کروانے والی خواتین کا تعلق محکمہ تعلیم سے تھا۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر نزہت صادق کہتی ہے کہ خواتین کو اُن کے دفاتر اور دیگر مقامات پر جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کے خلاف قانون موجود ہے جس میں سزائیں اور جرمانہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ سرکاری اور نجی اداروں میں اس کا موثر نفاذ بہت ضروری ہے۔

’’ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے ادارے ان قوانین کے بارے میں اپنے ہاں کام کرنے والی خواتین کو بتاتے ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ شکایات ہی درج نہیں کروا سکتیں۔‘‘

خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن اقصٰی خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حالیہ برسوں میں عورتوں کے تحفظ کے لیے بہت سے قوانین بنائے گئے جو حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔

عنبرین عجائب بھی عورتوں کے تحفظ کے لیے طویل عرصے سے کام کر رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ حالات کا تقاضہ ہے کہ موجودہ قوانین کا موثر نفاذ کیا جائے۔

’’خواتین کے خلاف فرسودہ روایت تو چلی آ رہی ہیں، اگر پولیس کے محکمہ اور ان قوانین کے نفاذ کے لیے دیگر ڈھانچے کو موثر نہیں بنایا جائے گا تو پھر یہ قوانین ایک الماری کا حصہ بنے رہیں گے۔‘‘

خواتین کے خلاف تشدد کے عالمی دن کے موقع پر حقوق نسواں کی تنظیموں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے والی متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں کی ذاتی شناخت کو خفیہ رکھا جائے اور اُن کی بحالی کے لیے وسائل مختص کیے جائیں۔