امارات اسرائیل معاہدہ: کئی عرب ملکوں کا خیر مقدم، ترکی اور ایران کی تنقید

خلیجی ملکوں کے اخبارات نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے کی خبر کو اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دی ہے۔ 

دنیا کے کئی ممالک نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ فلسطین، ایران، ترکی اور بعض مزاحمتی تنظیموں نے اس پر کڑی تنقید کی ہے۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان جمعرات کو سفارتی تعلقات اور فلسطین کے مغربی کنارے کے اسرائیل کے ساتھ انضمام کو روکنے سے متعلق ایک معاہدہ طے پایا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلد ٹرمپ نے جمعرات کو یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جب کہ متحدہ عرب امارات کے رہنما شیخ زید النیہان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ٹیلی فون کال کے دوران ایک معاہدے پر پہنچے ہیں تاکہ اسرائیل کو مزید فلسطینی علاقے ضم کرنے سے روکا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے باہمی تعلقات کے قیام سمیت مستقبل میں ایک ساتھ چلنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

خلیجی ملکوں کے اخبارات نے اس خبر کو اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دی ہے۔

دوسری جانب فلسطین نے اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اسے دھوکہ قرار دیا ہے۔

فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر واپس بلانے سمیت عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

ایران نے اس معاہدے کو خطرناک اور ناجائز قرار دیا ہے۔ ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی 'آئی آر این اے' کے مطابق ایرانی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا اقدام شرمناک ہے۔ متحدہ عرب امارات اپنے اقدام کے نتائج کا خود ذمہ دار ہو گا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا اقدام فلسطینیوں کی کمر میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے معاہدے کو خلیجی اخبارات نے نمایاں کوریج دی ہے۔

فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے فلسطینیوں کے مقاصد پر کاری ضرب لگائی ہے اور اس سے اسرائیل کو قبضے کا موقع ملے گا۔

حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے فون پر گفتگو کی ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے کو مسترد کرتے ہیں۔

سعودی عرب کی جانب سے اب تک سرکاری طور پر کوئی بیان سامنے ںہیں آیا ہے تاہم سعودی شہری سوشل میڈیا پر اس معاہدے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔

مصر کا ردِعمل

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام فلسطین کی زمین پر اسرائیلی تعمیرات کو روکنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

عبدالفتاح السیسی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امریکہ، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کا مشترکہ اعلامیہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی راہ ہموار کرے گا۔

انہوں نے ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النیہان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا یہ تاریخی اقدام امن کی جانب قدم ہے۔

فرانس

فرانس نے بعض تحفظات کے ساتھ اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ فرانس کے وزیرِ خارجہ جین لی ڈرین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے مغربی کنارے کے الحاق کی منسوخی مثبت قدم ہے جسے عملی جامہ پہنانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مشترکہ اعلامیے کے بعد اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کی بحالی کی ضرورت ہے۔ تاکہ عالمی قوانین کے تحت پہلے سے طے شدہ دو ریاستی فارمولے کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے اور یہی مستقل امن کا واحد آپشن ہے۔

اقوامِ متحدہ کا ردعمل

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دوبارہ بامقصد مذاکرات کا موقع فراہم کرے گا۔

انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل اور مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔

اردن

اردن نے کہا ہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے کا دار و مدار اسرائیل کے ردِ عمل پر ہوگا۔

اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن سفادی نے کہا ہے کہ وہ نہ تو اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور نہ اسے مسترد کریں گے۔

ترکی

ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر متحدہ عرب امارات کو اسرائیل سے مذاکرات کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ خطے کے لوگ متحدہ عرب امارات کا منافقانہ رویہ کبھی نہیں بھولیں گے اور اس عمل پر اسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔

عمان

متحدہ عرب امارات کے پڑوسی ملک عمان نے اسرائیل اور اماراتی حکومت کے درمیان تعلقات کے استوار کرنے کا خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سے مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کیا جا سکے گا۔

بحرین نے بھی کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے تاریخی اقدام سے خطے میں امن کی کوششیں مضبوط ہوں گی۔