اپنے پراجیکٹس کے لیے نیویارک سے کراچی جانا تھکا دینے والا سفر ہے مگر کام مکمل کرنے کے بعد واپسی بہت پرسکون لگتی ہے۔ نامور ڈائریکٹر کی وائس آف امریکہ سے گفتگو
مہرین جبار کا شمار پاکستان کے ان ڈائریکٹرز میں ہوتا ہے جن کا نام ہی کسی پراجیکٹ کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ مہرین نے 22 برس کی عمر سے باقاعدہ ڈرامہ ڈائریکشن کا آغاز کیا۔ گذشتہ 19 برسوں میں انہوں نے کئی سپر ہٹ ڈرامہ سیریل، سیریز اور طویل دورانیے کے کھیلوں کے ساتھ ساتھ فیچر فلم ’’رام چند پاکستانی‘‘ سے خود کو منوایا ہے۔
مہرین نے کراچی کے سینٹ جوزف کالج سے بیچلر کرنے کے بعد امریکہ سے فلم ،ٹیلی وژن اور ویڈیو میں سرٹیفیکیشن کی ہے۔ اپنی کامیابیوں کو وہ گھر کے ماحول اور والدین کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ذاتی دلچسپی کا ثمر قرار دیتی ہیں۔
مہرین امریکہ کے شہر نیویارک میں رہائش پذیر ہیں۔ ہمارےاس سوال پر کہ ان پراجیکٹس پرجو پاکستان کے پس منظر میں ہوتے ہیں آپ کو بار بار پاکستان جانا مشکل تو لگتا ہو گا۔ مہرین نے کہا کہ تھوڑا بہت نہیں کافی لمبا سفر ہو جاتا ہےلیکن جب کسی پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے بعد واپس نیویارک آتی ہوں تو بہت اچھا لگتا ہے سکون ہی سکون نا کوئی مداخلت نا پریشانی، میں نے یہاں رہنا اسی لیے چنا کیونکہ یہاں آزادی سے گھوم پھر سکتی ہوں، جو چاہوں کر سکتی ہوں پاکستان ویسے تو بہت پسند ہے لیکن امن و امان کی جو صورتحال ہے بس اسی سے تھوڑا گھبراتی ہوں اور پھران دونوں دنیاؤ ں کا ماحول مجھے بہت متاثر کرتا ہے اور میرے کام میں مختلف رنگ کا غماز بھی ہے۔
مہرین کے ٹی وی ڈراموں کو بے حد پزیرائی حاصل ہوئی ہے ان کے نمایاں ڈراموں میں دوراہا، ملال، دام، وصل، متاع جاں ہے تو، رہائی، پتلی گھر، اب تم جا سکتے ہو اور زندگی بدلتی ہے، چلو پھر سے مسکرا ئیں، بیوٹی پارلر، فرار، ہرجائی، لال بیگ، ابا اماں اور علی، صنم گذیدہ، پہچان، نیو یارک سٹوریز، کہانیاں، نیت اور کوک کہانی وغیرہ شامل ہیں۔
مہرین آج کل ایک فیچر فلم پر کام کر رہی ہیں اور اسے اپنا ڈریم پراجیکٹ کہتی ہیں۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس فلم کی کہانی طبقاتی فرق اور گاؤں کے ایک لڑکے کے خوابوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ایک دیہات سے تعلق رکھنے والا لڑکا اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے شہر آتا ہے اور پھر شہر اس کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے بس یہی ہماری فلم کا اصل تھیم ہے۔
مزید تفصیل اس آڈیو رپورٹ میں۔
مہرین نے کراچی کے سینٹ جوزف کالج سے بیچلر کرنے کے بعد امریکہ سے فلم ،ٹیلی وژن اور ویڈیو میں سرٹیفیکیشن کی ہے۔ اپنی کامیابیوں کو وہ گھر کے ماحول اور والدین کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ذاتی دلچسپی کا ثمر قرار دیتی ہیں۔
مہرین امریکہ کے شہر نیویارک میں رہائش پذیر ہیں۔ ہمارےاس سوال پر کہ ان پراجیکٹس پرجو پاکستان کے پس منظر میں ہوتے ہیں آپ کو بار بار پاکستان جانا مشکل تو لگتا ہو گا۔ مہرین نے کہا کہ تھوڑا بہت نہیں کافی لمبا سفر ہو جاتا ہےلیکن جب کسی پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے بعد واپس نیویارک آتی ہوں تو بہت اچھا لگتا ہے سکون ہی سکون نا کوئی مداخلت نا پریشانی، میں نے یہاں رہنا اسی لیے چنا کیونکہ یہاں آزادی سے گھوم پھر سکتی ہوں، جو چاہوں کر سکتی ہوں پاکستان ویسے تو بہت پسند ہے لیکن امن و امان کی جو صورتحال ہے بس اسی سے تھوڑا گھبراتی ہوں اور پھران دونوں دنیاؤ ں کا ماحول مجھے بہت متاثر کرتا ہے اور میرے کام میں مختلف رنگ کا غماز بھی ہے۔
مہرین کے ٹی وی ڈراموں کو بے حد پزیرائی حاصل ہوئی ہے ان کے نمایاں ڈراموں میں دوراہا، ملال، دام، وصل، متاع جاں ہے تو، رہائی، پتلی گھر، اب تم جا سکتے ہو اور زندگی بدلتی ہے، چلو پھر سے مسکرا ئیں، بیوٹی پارلر، فرار، ہرجائی، لال بیگ، ابا اماں اور علی، صنم گذیدہ، پہچان، نیو یارک سٹوریز، کہانیاں، نیت اور کوک کہانی وغیرہ شامل ہیں۔
مہرین آج کل ایک فیچر فلم پر کام کر رہی ہیں اور اسے اپنا ڈریم پراجیکٹ کہتی ہیں۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس فلم کی کہانی طبقاتی فرق اور گاؤں کے ایک لڑکے کے خوابوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ایک دیہات سے تعلق رکھنے والا لڑکا اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے شہر آتا ہے اور پھر شہر اس کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے بس یہی ہماری فلم کا اصل تھیم ہے۔
مزید تفصیل اس آڈیو رپورٹ میں۔
Your browser doesn’t support HTML5