ملک میں میڈیا سنسرشپ کی سطح کیا ہے، یہ کسی اخبار کے ایڈیٹر اور ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ جو اخبار زیادہ چھپتا ہے، جو نیوز چینل زیادہ دیکھا جاتا ہے، اسے زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب کہ ایڈیٹر یا ڈائریکٹر نیوز کو لوگوں کے فون سننا پڑتے ہیں جو سیلف سنسرشپ پر مجبور کرتے ہیں۔ انھیں ایسے ناپسندیدہ لوگوں سے رابطے رکھنے پڑتے ہیں جو بات نہ ماننے پر انھیں دھمکیاں دیتے ہیں۔
وائس آف امریکا نے ایک ایسے ایڈیٹر سے گفتگو کی جسے میڈیا کی آزادی کی خواہش ہے لیکن اپنے ادارے کا مفاد بھی عزیز ہے کیونکہ اس سے بہت سے کارکنوں کا روزگار وابستہ ہے۔ ایڈیٹر صاحب کی خواہش پر ان کا نام نہیں لکھا جارہا۔
سوال: پاکستان میں سنسرشپ یا سیلف سنسرشپ کیوں کی جارہی ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟
جواب: یہ کوئی راز نہیں ہے کہ سنسرشپ پر کون مجبور کر رہا ہے. لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ حالات یہاں تک کیسے پہنچے۔ اس کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ ہم یعنی صحافی۔ ہم یعنی میڈیا گروپس۔ ہم جب موقع دیں گے، گنجائش فراہم کریں گے تو طاقتور قوتیں آگے آئیں گی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں میڈیا کو کافی آزادی تھی۔ پھر انھوں نے افتخار محمد چودھری کو معزول کیا۔ عدلیہ بحالی کے نام پر میڈیا افتخار چوہدری کی اخلاقی حمایت کر سکتا تھا. لیکن صحافی ان کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ جیونیوز اور دوسرے چینلوں نے طویل نشریات پیش کرنا شروع کردیں۔ ان کی جلسے اور تقاریر براہ راست دکھائی جاتیں۔ ایک حد سے آگے جانا مناسب نہیں تھا۔ اس کا نقصان ہوا۔
عدلیہ کو معلوم ہوا کہ وہ بہت اہم ہے اور عوام اس کے ساتھ ہیں۔ عوام اس وقت اس کے ساتھ تھے، آج شاید وہ صورتحال نہیں۔ لیکن جج ابھی تک اسی طرح سوچ رہے ہیں۔ ان کے ریمارکس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے۔
دوسری جانب ریاستی اداروں کو احساس ہوا کہ میڈیا بادشاہ گر بن رہا ہے۔ قومی امور میں مداخلت کر رہا ہے اور ضرورت سے زیادہ پاؤں پھیلا رہا ہے۔ انھوں نے سوچا کہ میڈیا کو کنٹرول نہ کیا تو مستقبل میں بڑا مسئلہ ہوجائے گا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
سوال: ایک خیال یہ ہے کہ ریاستی اداروں نے بعض نئے لوگوں کو میڈیا کی جانب آنے کی ترغیب دی تاکہ بہت سے چینل ہوجائیں اور پرانے میڈیا اداروں کا اثر کم ہوجائے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: اس بات میں سچائی ہوگی. لیکن اس حد تک کہ چند چینلوں پر ہاتھ رکھا گیا ہوگا۔ زیادہ میڈیا ادارے اس لیے ہوگئے ہیں کہ میڈیا کسی بھی دوسرے کاروبار کے مقابلے میں زیادہ منافع بخش بزنس بن گیا تھا۔ کاروباری طبقے کے لیے لینڈ مافیا کے ڈان ایک ماڈل بن گئے۔ انھوں نے کیا کیا؟ زمینوں پر قبضہ کیا اور چند جرنیلوں کو بیس بیس لاکھ روپے ماہانہ پر ملازم رکھ لیا۔ اس کے بعد جو بھی کام کرنا چاہا، اس میں رکاوٹیں دور ہوتی چلی گئیں۔
کئی کاروباری افراد نے بھی یہی سوچا کہ نیوز چینل کھول لیتے ہیں اور بیس بیس لاکھ روپے والے اینکروں کو ملازم رکھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد نیوز چینل چلے یا نہ چلے، دوسرے کاروبار چلتے رہیں گے اور ان میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔
آپ دیکھ لیں کہ اس وقت ملک میں چالیس پینتالیس نیوز چینل ہیں۔ بمشکل چار یا پانچ چینل ایسے ہیں جن کی بقا کا انحصار میڈیا کی آمدن پر ہے۔ باقی کوئی چینل گھی والے کا ہے، کوئی چینل بیکری والوں کا ہے، کوئی چینل تعلیمی اداروں والے کا ہے۔ میڈیا کی صنعت مالی بحران کا شکار ہے. لیکن انھیں کوئی پریشانی نہیں کیونکہ ان کا پیسہ کہیں اور سے جنریٹ ہو رہا ہے۔
سوال: اگر پیسہ کہیں اور سے کمایا جا رہا ہے تو پھر تنخواہیں کیوں تاخیر کا شکار ہیں اور چھوٹے ملازم کیوں نکالے جارہے ہیں؟ بیس تیس اور چالیس لاکھ تنخواہوں والے لوگ تو محفوظ ہیں۔
جواب: ایک چینل بریکنگ نیوز چلاتا ہے تو دوسرے بھی چلاتے ہیں کیونکہ یہ بھیڑ چال کا شکار ہیں۔ ایک چینل تنخواہوں میں اضافہ کرتا ہے تو دوسرے چینلوں کو بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ انھیں خطرہ ہوتا ہے کہ اچھے کارکن انھیں چھوڑ کر نہ چلے جائیں۔ اسی طرح جب ایک چینل تنخواہوں میں تاخیر کرتا ہے تو دوسرے اور تیسرے چینل کو بھی یہی حربہ سوجھتا ہے۔ ہر چینل کے مالی حالات خراب نہیں ہیں۔
حقیقی میڈیا اداروں کو مالی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ ان کے اشتہارات کم ہوئے ہیں اور ڈسٹری بیوشن متاثر ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان مشکلات کا سبب بڑے نام اور بڑے اینکر نہیں ہیں۔ جب حالات بہتر ہوں گے تو وہی لوگ انھیں ریٹنگ فراہم کریں گے۔ اس لیے ان اداروں کے پاس یہی صورت بچتی ہے کہ وہ کم تنخواہ والے کچھ کارکنوں سے معذرت کرلیں۔
سوال: کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا کا مستقبل مخدوش ہے اور یہ صورتحال بہت عرصے تک برقرار رہے گی۔ کیا پرانے اور مستحکم ادارے بند ہونے کا خدشہ ہے؟
جواب: ہم اپنی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ مقتدر ریاستی اداروں کی بات مان رہے ہیں۔ ریڈ لائن کراس نہیں کر رہے۔ قاری اور ناظر کو بھی خود سے دور ہونے سے روک رہے ہیں۔ مشکل حالات سے لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ میڈیا کا وجود حکومت کے اپنے لیے بھی ضروری ہے۔ اس طرح سوچیں کہ عمران خان ایک کروڑ نہ سہی، ایک لاکھ ملازمتیں فراہم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ وہ گھر گھر دروازہ کھٹکھٹا کر تو لوگوں کو نہیں بتائیں گے کہ میں نے آپ کی کتنی خدمت کی ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے جو ان کی بات گھر گھر پہنچاتا ہے۔ میڈیا کا گلا گھونٹنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی آواز کو خود ہی خاموش کروا دیں۔
سوال: آپ کے خیال میں یہ بات ریاستی اداروں کی سمجھ میں بھی آئے گی؟ کیونکہ انھیں سیاسی حکومت جیسی مجبوریاں درپیش نہیں ہوتیں؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ پرانے اور مستحکم میڈیا اداروں کا اثر کم کرنے کے لیے کچھ نئے گروپس کی حمایت کررہی ہے۔ شاید وہ کچھ ایسی صورت چاہتی ہے کہ ایک گروپ کی بات کراچی میں سنی جارہی ہے تو لاہور میں دوسرا چینل مقبول ہو۔ میڈیا بکھر جائے اور سب کے پاس الگ الگ اشوز ہوں۔ اس طرح میڈیا ویسی قوت نہیں رہ پائے گا جو ریاستی اداروں کے لیے دردسر بن جاتا ہے۔
سوال: لیکن میڈیا کے تقسیم ہونے سے ریاست کی وحدت متاثر نہیں ہوگی؟ کیونکہ مقامی ذرائع ابلاغ کو زیادہ مقبولیت ملنے سے علاقائی تعصب اور نسل پرستی بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے؟
جواب: جی ہاں، یہ خدشات تو ہوں گے. لیکن ہم نہیں جانتے کہ کسی نے ایسا سوچا بھی ہے یا نہیں۔ میڈیا آزاد ہو تو ہر طرح کے حساس موضوع پر گفتگو کی جاسکتی ہے اور مسائل کا بہتر حل نکل سکتا ہے۔ میڈیا پابندیوں کا سامنا کر رہا ہو تو پھر غلط فیصلوں پر کوئی ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔
نوٹ: وائس آف امریکا اردو نے پاکستان میں پریس فریڈم کی صورتحال کے بارے میں انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس میں صحافیوں، میڈیا اداروں کے مالکان اور میڈیا کے بارے میں سرکاری پالیسی سے متعلق عہدیداروں سے گفتگو شامل کی جاتی رہے گی۔ اوپر دیا گیا انٹرویو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔