’’معاشرے میں پھیلی یہ کشیدگی کی فضا ’عدم برداشت‘ کی انتہائی شکل ہے،‘‘ جناح اسپتال کے شعبہ ِنفسیات کے سربراہ ڈاکٹر اقبال آفریدی کی وائس آف امریکہ سے گفتگو۔
آئے دن پاکستان کے مختلف حصو سے تشدد کی خبریں نظروں سے گزرتی ہیں یہی نہیں اگر حالیہ زندگی میں بھی نظر دوڑائی جائے تو ہمیں بہت سے مقامات پر اکثر اوقات افراد عدم برداشت کے مظاہرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کبھی پبلک مقامات پر مختلف باتوں پر افراد کا دست و گریباں ہوجانا، کرایہ زیادہ مانگنے پر کنڈیکٹر کی شامت، من پسند اسٹاپ پر بس نہ روکنے پر مسافروں کاعدم برداشت، سگنل توڑدینے پر ٹریفک کانسٹبل کا رویہ، والدین کا بچوں پر ضرورت سے زیادہ جھڑک دینا یا کبھی بچوں کا والدین سے طویل بحث اور غصہ دکھا دینا، گاڑی کی ٹکر پر سیخ پا ہوجانا
یا اوور ٹیک کرنے والے کو گالیاں سنانا، لوڈشیڈنگ اور احتجاجاً ٹائر جلا دینا، روڈ بلاک کردینا یہ سب چیزیں ہمیں معاشرے کے 'عدم برداشت' رویے کی ایک تصویر دکھاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں جہاں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آتی جارہی ہے وہیں بہت سی چیزیں مثبت رو کے بجائے منفی سطح پر تیزی سے گامزن ہو رہی ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے کیلئے تشویشناک امر ہے۔
شہر کراچی کی بات کی جائے تو آئے دن قتل و غارت کے واقعات سامنے آتے ہیں جسکا محرک اکثر اوقات ذاتی دشمنیوں کا نتیجہ بتایا جاتا ہے جس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ معاشرہ کس ڈگر پر چل نکلا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ماہر ِنفسیات اور جناح اسپتال کے شعبہ نفسیات کے سربراہ داکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ، ’ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کے رجحان میں اضافہ ہوتا جارہاہے جبکہ معاشرے میں پھیلی یہ کشیدگی کی فضا 'عدم برداشت' کی انتہائی شکل ہے۔ جبکہ افراد میں ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے‘۔
ڈاکٹر اقبال آفریدی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شہریوں میں عدم برداشت کی اہم وجہ ’میڈیا‘ کو قراردیتے ہیں ان کا کہنا ہے ایک طرف میڈیا اچھا رول پیش کر رہا ہے مگر میڈیا پر نشر ہونے والے تشدد والے پروگرام، فلمیں نئی نسل پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ عام طور پر بچے پرتشدد فلمیں دیکھنے اور ایسے ویڈیو گیمز کھیلنا پشند کرتے ہیں جسمیں تشدد کا عنصر زیادہ پایاجاتا ہے‘۔
افسوسناک امر یہ ہے ہمارے تعلیمی ادارے بھی اسمیں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے، اہل اساتذہ کی کمی کے باعث طالبعلم کورس کی کتابوں کے علاوہ طرز زندگی کے بنیادی اصول سیکھنے سےمحروم رہ جاتے ہیں جس کا نتیجہ عملی زندگی میں سامنے آرہا ہے۔
معاشرے پر عدم برداشت کے اثرات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ، ’معاشرے میں اسکے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں لوگ اپنے آپکو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں‘۔
جبکہ نفسیاتی مسائل جیسے خوف، غصہ، چڑچڑاپن اور ذہنی الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ ماہر نفسیات کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں، ’شہر میں ہر چار میں سے ایک شخص نفسیاتی مریض ہے۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق روزانہ 100 سے زائد مریض اسپتال کا رخ کر رہے ہیں‘۔
1996 سے ہر سال دنیا بھر مہں 16 نومبر کا دن 'برداشت کے عالمی دن' کے طور پر منانے اور اس سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے اقدامات کئےجارہے ہیں افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سے ایک دن قبل پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ہونےوالے کشیدہ صورتحال کے باعث 8 افراد جان کی بازی ہارگئے اور پورا شہر کشیدگی سے متاثر ہے تو اندازہ لگانا آسان ہے کہ پاکستان میں 'عدم برداشت' کی صورتحال کس حد تک خراب ہوتی جارہی ہے۔
کبھی پبلک مقامات پر مختلف باتوں پر افراد کا دست و گریباں ہوجانا، کرایہ زیادہ مانگنے پر کنڈیکٹر کی شامت، من پسند اسٹاپ پر بس نہ روکنے پر مسافروں کاعدم برداشت، سگنل توڑدینے پر ٹریفک کانسٹبل کا رویہ، والدین کا بچوں پر ضرورت سے زیادہ جھڑک دینا یا کبھی بچوں کا والدین سے طویل بحث اور غصہ دکھا دینا، گاڑی کی ٹکر پر سیخ پا ہوجانا
ہمارے معاشرے میں جہاں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آتی جارہی ہے وہیں بہت سی چیزیں مثبت رو کے بجائے منفی سطح پر تیزی سے گامزن ہو رہی ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے کیلئے تشویشناک امر ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ماہر ِنفسیات اور جناح اسپتال کے شعبہ نفسیات کے سربراہ داکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ، ’ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کے رجحان میں اضافہ ہوتا جارہاہے جبکہ معاشرے میں پھیلی یہ کشیدگی کی فضا 'عدم برداشت' کی انتہائی شکل ہے۔ جبکہ افراد میں ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے‘۔
ڈاکٹر اقبال آفریدی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شہریوں میں عدم برداشت کی اہم وجہ ’میڈیا‘ کو قراردیتے ہیں ان کا کہنا ہے ایک طرف میڈیا اچھا رول پیش کر رہا ہے مگر میڈیا پر نشر ہونے والے تشدد والے پروگرام، فلمیں نئی نسل پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ عام طور پر بچے پرتشدد فلمیں دیکھنے اور ایسے ویڈیو گیمز کھیلنا پشند کرتے ہیں جسمیں تشدد کا عنصر زیادہ پایاجاتا ہے‘۔
افسوسناک امر یہ ہے ہمارے تعلیمی ادارے بھی اسمیں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے، اہل اساتذہ کی کمی کے باعث طالبعلم کورس کی کتابوں کے علاوہ طرز زندگی کے بنیادی اصول سیکھنے سےمحروم رہ جاتے ہیں جس کا نتیجہ عملی زندگی میں سامنے آرہا ہے۔
معاشرے پر عدم برداشت کے اثرات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ، ’معاشرے میں اسکے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں لوگ اپنے آپکو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں‘۔
جبکہ نفسیاتی مسائل جیسے خوف، غصہ، چڑچڑاپن اور ذہنی الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ ماہر نفسیات کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں، ’شہر میں ہر چار میں سے ایک شخص نفسیاتی مریض ہے۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق روزانہ 100 سے زائد مریض اسپتال کا رخ کر رہے ہیں‘۔
1996 سے ہر سال دنیا بھر مہں 16 نومبر کا دن 'برداشت کے عالمی دن' کے طور پر منانے اور اس سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے اقدامات کئےجارہے ہیں افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سے ایک دن قبل پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ہونےوالے کشیدہ صورتحال کے باعث 8 افراد جان کی بازی ہارگئے اور پورا شہر کشیدگی سے متاثر ہے تو اندازہ لگانا آسان ہے کہ پاکستان میں 'عدم برداشت' کی صورتحال کس حد تک خراب ہوتی جارہی ہے۔