ایران اور افغانستان کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بغیر کوائف اور ضروری دستاویزات کے ایران میں موجود ہزاروں افغان مہاجرین کو لڑائی کے لیے شام بھیجا گیا ہے۔
ان افغانوں کو شام اس لیے بھیجا گیا تاکہ وہ ایرانی فورسز اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ مل کر صدر بشار الاسد کی حمایت میں مخالفین سے لڑیں۔
بتایا جاتا ہے کہ ایران سے ہزاروں افغان مہاجرین شام گئے اور مغربی ذرائع ابلاغ نے ان کی تعداد 10 سے 12 ہزار بتائی ہے۔
انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ’ہیومین رائٹس واچ‘ یعنی (ایچ آر ڈبلیو) نے جمعہ کو اپنی رپورٹ میں کہا کہ کچھ افغانوں کو اُن کی خواہش کے برعکس شام بھیجا گیا جب کہ ایران کا کہنا ہے کہ افغان رضا کارانہ طور پر شام جا رہے ہیں۔
ایران کی فورس پاسداران انقلاب، جو کہ بشار الاسد کی حمایت میں لڑ رہی ہے، نے اس وعدے پر افغانوں کو بھرتی کیا کہ اُنھیں ایران کی شہریت اور اُن کے خاندانوں کو بہتر معیار زندگی کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
ہیومین رائٹس واچ کے ایک عہدیدار پیٹر بوکیرٹ نے کہا ہے کہ ایران نے شام میں لڑائی میں شرکت کے لیے افغان پناہ گزینوں کو ناصرف مراعات کی پیش کش کی ’’بلکہ کہا کہ اگر اُنھوں نے ایسا نا کیا تو اُنھیں افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا۔‘‘
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ایک محقق اور بلاگر فلپ سمیتھ نے کہا کہ افغان جنگجوؤں کو چار سو سے چھ سو ڈالر تک ادا کیے جاتے ہیں۔
فلپ کا کہنا ہے کہ بعض افغان مہاجرین کو ایران کی جیلوں سے نکال کر شام میں لڑائی کے لیے بھیجا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’بعض واقعات میں بغیر اندارج کے افغان (شیعہ) پناہ گزینوں کو یہ دھمکی دی گئی کہ اگر (وہ شام نا گئے) تو انھیں جیل میں ڈال دیا جائے گا‘‘
ایک محتاط انداز کے مطابق ایران میں لگ بھگ 30 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ ان میں سے اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو اپنے ملک میں تنازع اور جنگ کے باعث ایران منتقل ہوئے۔
بہت سے افغانی بغیر باقاعدہ حیثیت کے ایران میں رہ رہے ہیں جب کہ لگ بھگ نو لاکھ 50 ہزار ایسے مہاجرین ہیں جن کے کوائف کا اندارج نہیں ہے۔
جن افغانوں کو ایران سے شام بھیجا گیا اُن کا تعلق ایران کے علاقوں قم اور مشہد سے ہے جہاں بیشتر افغان مہاجرین آباد ہیں۔
ایرانی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شام میں حضرت زینب کے مزار کی حفاظت کے لیے ان افغانوں کو بھیجا گیا ہے، یہ مزار شیعہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔
شام میں باغی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ اُنھیں ملک بھر میں افغان جنگجوؤں کا سامنا رہا ہے۔
دمشق کے مشرق میں حزب مخالف کی ایک مرکزی فورس ’آرمی آف اسلام‘ کے ترجمان اسلام علیوش نے بتایا کہ ماضی کی نسبت افغانوں کی موجودگی بہت زیادہ ہے۔
لیکن اُن کے بقول یہ زیادہ تر حلب میں ہیں۔ ’’اُن کے کچھ یونٹ دمشق کے اردگرد ہیں، حکومت اس لیے اُن پر انحصار کر رہی ہیں کیوں کہ اسے افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے۔‘‘
ایرانی میڈیا کے مطابق ایران کی القدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی شام میں افغان بریگیڈ کا دورہ کر چکے ہیں جہاں اُنھوں نے کچھ تصاویر بھی بنائیں۔
محقق فلپ سمیتھ کا کہنا ہے کہ افغانوں کو لبنان میں موجود حزب اللہ کے زیر اہتمام تربیتی مراکز میں ٹریننگ دی گئی اور اب وہ حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ مل کر شام میں لڑ رہے ہیں۔
ایرانی ذرائع کے مطابق ان میں سے اکثریت کو 10 روز سے ایک ماہ کے درمیان ابتدائی تربیت مشہد اور جنوبی ایران ہی کے مضافاتی علاقے میں دی گئی۔
اطلاعات کے مطابق شام میں افغانوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ ایرانی حمایت یافتہ جنگجو اس وقت بشار الاسد کی حکومت کے لیے ایک مرکزی زمینی فورس ہیں۔
علی علفونہی شام میں جنگ کے دوران ہلاکتوں کے اعداد و شمار رکھنے والی ’فاؤنڈیشن فار ڈیفننس آف ڈیموکریسی‘ سے وابستہ سینئیر فیلو ہیں۔ اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ستمبر 2012 سے اب تک شام میں 200 سے زائد افغان جنگجو مارے جا چکے ہیں۔
ایران میں پیدا ہونے والے افغان فوٹو گرافر مجتبٰی جلیلی افغان جنگجو کی نماز جنازہ کی تصاویر بناتے ہیں، اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگ چند سو ڈالر کے عوض اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔
وہ افغان جو شام میں لڑ رہے ہیں اُن کے خاندانوں کو ایران میں مراعات مل رہی ہیں۔
تہران میں مقیم ایک افغان شہری نے نام نا بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کا بھائی بھی شام میں لڑائی کے دوران ہلاک ہو چکا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر کوئی زندہ واپس لوٹ آتا ہے تو یہ اُن کے مہاجر خاندان کی زندگیاں تبدیل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔
’’میرے بھائی نے اپنے خاندان کے لیے قربانی دی‘‘۔ اُنھوں بتایا کہ ’’اب میری والدہ کو دل کے مرض کی دوا مل سکتی ہے اور ہمارے خاندان کے دیگر لوگوں کو ایران میں قیام کی قانونی دستاویزات ملیں۔‘‘
ایسے افغان جو شام میں لڑائی کے دوران مارے گئے اُن کے اہل خاندان کے لیے ایران کا متعلقہ ادارہ ادویات کا خرچہ برداشت کرتا ہے۔
لیکن ہیومین رائٹس واچ نے کہا کہ ایسا معاوضہ یا مدد ہر ایک کو نہیں ملتی۔
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے شام جا کر لڑنے سے متعلق رپورٹ کی تحقیقات کر رہی ہے۔
افغان پارلیمنٹ کے رکن قیوم ساجدی کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ایران میں افغان مہاجرین کو جن سخت سماجی و معاشی حالات کا سامنا ہے اُس کی بنیاد پر اُنھیں مجبوراً علاقائی تنازعات میں شرکت کرنی پڑ رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ایران میں موجود جن نوجوان افغانوں کو شام بھیجا جاتا ہے یا تو وہ وہاں مارے جاتے ہیں یا پھر حزب مخالف کے گروپ کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں۔
ہیومین رائٹس واچ نے کہا کہ ایران افغانوں کو شام میں لڑائی کے لیے استعمال کو ہر صورت روکے۔