ایران کے صدر حسن روحانی اور امیرِ قطر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے ایران امریکہ کشیدگی کے خاتمے پر اتفاق کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق امریکہ اور ایران کے درمیان 10 روز سے جاری کشیدگی کے بعد تہران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا۔
'اے ایف پی' کے مطابق امیر قطر کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ ان کی ہونے والی ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ خطے میں کشیدگی کے خاتمے کا واحد حل تناؤ میں کمی لانا ہے۔
ایران کا پہلا دورہ کرنے والے امیر قطر کا مزید کہنا تھا کہ ہر فریق کو مذاکرات کا حصہ بننا ہو گا۔ کیوں کہ کشیدگی کا خاتمہ اسی سے ممکن ہے۔
صدر حسن روحانی کا اس ملاقات کے حوالے سے کہنا ہے کہ "خطے کی مجموعی سیکیورٹی کے لیے ہم نے مزید مشاورت اور تعاون پر اتفاق کیا ہے۔"
امیر قطر کے علاوہ اتوار کو پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی تہران کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے صدر حسن روحانی سے ملاقات کی جس کے دوران امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی۔
SEE ALSO: یوکرین کا مسافر طیارہ غلطی سے مار گرایا: ایران کا اعترافامیرِ قطر اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے دورۂ ایران کو سفارتی حلقوں میں خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
اتوار کو جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو ایبے اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی خبر دار کیا تھا کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے اثرات عالمی امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔
امریکہ اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کے اثرات عراق میں بھی دیکھی جا رہے ہیں۔ اتوار کو عراقی ایئربیس 'البلد' پر راکٹ حملے ہوئے جس میں عراقی فوج کے چار افسران سمیت دیگر دو زخمی ہوئے۔
مذکورہ ایئربیس پر امریکی ایئر فورس کے کنٹریکٹر بھی کم تعداد میں موجود تھے تاہم امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کے فوری بعد بیس سے امریکی اہلکاروں کا انخلا کر لیا گیا تھا۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا عراقی بیس پر حملے پر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ عراقی ایئربیس پر ہونے والے مسلسل حملے عراق کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ یہ کارروائیاں ان کی جانب سے کی جا رہی ہیں جو عراقی حکومت کے وفادار نہیں ہیں اور ان حملوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
اتوار کو ہونے والے ان راکٹ حملوں کی کسی گروپ کی جانب سے ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ البتہ اس سے قبل ہونے والے حملوں پر امریکہ نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کی جانب سے کیے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ تین جنوری کو امریکی ڈرون حملے میں ایران کے پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران نے عراق میں امریکہ کے دو فوجی اڈوں کو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔
اسی روز تہران میں یوکرین کا مسافر طیارہ بھی گر کر تباہ ہوا تھا جس میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بعدازاں امریکہ اور کینیڈا نے الزام عائد کیا تھا کہ مسافر طیارہ ایران کے میزائل سے تباہ ہوا تھا۔
ایران کی جانب سے مسلسل انکار کے بعد صدر حسن روحانی نے ہفتے کو اعتراف کیا تھا کہ انسانی غلطی کی وجہ سے بوئنگ 737 طیارہ تباہ ہوا جب کہ ایرانی ایئرو اسپیس کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ایرانی میزائل حملے سے گرنے والے مسافر طیارے کے واقعے کے خلاف ایران کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سیکڑوں افراد امیر کبیر یونیورسٹی، شریف اور تہران یونیورسٹی سمیت انقلاب اسکوائر پر جمع ہوئے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔