امریکہ کے ایک وفاقی جج نے 'واشنگٹن پوسٹ' کے ایک صحافی اور اس کی فیملی کو 544 سے زیادہ دنوں تک قید میں رکھنے اور اذیت دینے کے الزام سے متعلق ایک مقدمے میں ایران کو 180 ملین ڈالر معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایران نے امریکی جرنلسٹ کو جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔
عدالت نے یہ فیصلہ جیسن ریزائن کی جانب سے دائر کیے جانے والے ایک مقدمے میں کیا۔ اس مقدمے سے متعلق خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ایران میں انٹرینٹ سروسز بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ایرانی عہدے داروں نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہفتے بھر جاری رہنے والے حکومت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ انٹرنیٹ کو بھی بند کر دیا تھا۔
امریکی حکومت نے انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف ایران کے ٹیلی مواصلات کے وزیر پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
امریکہ کے ڈسٹرکٹ جج رچرڈ لیون نے واشنگٹن میں جمعے کو شام گئے ریزائن کے دعوے کا فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایرانی حکام نے زیر حراست صحافی کو اذیت دینے کے لیے سونے نہیں دیا، بیمار ہونے پر اسے طبی سہولتیں فراہم نہیں کیں اور دوران حراست اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایران نے جیسن کو حبس بے جا میں رکھا۔ اسے ہلاک کرنے کی دھمکیاں دیں اور یہ اس لیے کیا تاکہ اس کی رہائی کے بدلے امریکہ میں ایرانی قیدیوں کو چھڑایا جا سکے۔
جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایک شخص کو یرغمال بنانا، اس پر تشدد کرنا اور اس کے بدلے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں فوائد حاصل کرنا شرم ناک اقدام ہے جو سزا کا مستحق ہے۔
ایران نے کبھی بھی اس مقدمے میں حصہ نہیں لیا حالانکہ عدالت نے اسے تہران میں سوئٹزر لینڈ کے سفارت خانے کے ذریعے نوٹس بھیجا تھا۔ تہران میں سوئس سفارت خانہ اس ملک میں امریکی مفادات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
جیسن کے مقدمے کا آغاز 2014 میں بندوق کی نوک پر ان کا اپنی بیوی یگناسلاہی کی گرفتاری سے شروع ہوا تھا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح ایران مغربی باشندوں کو مذاکرات میں فائدہ اٹھانے کے لیے گرفتار کرتا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپس، امریکی تفتیش کاروں اور گرفتار کیے گئے افراد کے خاندان والوں نے اس کی مذمت کی۔
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ جیسن کو 180 ملین ڈالر کی رقم کی ادائیگی کیسے ہو گی۔ کیا یہ رقم امریکہ میں قائم دہشت گردی کی معاونت کرنے والی ریاست کے فنڈ سے ادا کی جائے گی۔ یہ فنڈ امریکہ نے 1979 میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے اور عملے کو یرغمال بنانے کے بعد متاثرہ افراد کی مدد کے لیے قائم کیا تھا۔ امریکہ نے اسلامی سپاہ پاسداران انقلاب کو اس کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے اسے دہشت گرد گروپ قرار دے کر پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔