ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق، ایلیٹ فورس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے پاسداران انقلاب نے منگل کو 12 افراد کو گرفتار کیا جن پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ان کا تعلق بیرون ملک ایجنٹوں سے ہے اور وہ "تخریب کاری" کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
پاسداران انقلاب کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نیٹ ورک کے ارکان، جرمنی اور ہالینڈ میں رہنے والے انقلاب مخالف ایجنٹوں کی رہنمائی میں، جنگی ہتھیار خریدکراور قومی سلامتی کے خلاف کام کر تے ہوئے ، تخریبی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
بیان میں گرفتار کیے گئے افراد کی قومیت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا اور نہ ہی کوئی اور تفصیل دی گئی ہے۔
16 ستمبر کو پولیس کی حراست میں ایک 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے، ایران ملک گیر احتجاج کی لپیٹ میں ہے جو 1979 میں شہنشاہت کا تختہ الٹ کر اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد سے قائم ہونے والی علما کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
لباس سے متعلق سخت سرکاری ضابطوں پر عمل درآمد کے لیے قائم کی جانے والی پولیس فورس نے مہسا کو اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ تہران آ رہی تھی ۔ اس پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اپنا سر ضا بطوں کے مطابق ڈھانپنے میں ناکام رہی ہے۔
SEE ALSO: کیا ایران میں اخلاقی پولیس واقعی ختم کر دی گئی ہے؟اخلاق کا نفاذ کرنے والی پولیس ن ے مبینہ طور پر مہسا پر تشدد کیا ،جس دوران وہ بے ہوش ہو گئی ،اسے اسپتال لے جایا گیا جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔
پولیس مہسا امینی پر کسی قسم کے تشدد سے انکار کرتی ہے ،لیکن ملک میں اس کی تدفین کے بعد سے مظاہروں کا سلسسلہ جاری ہے ،جس دوران پولیس کی جانب سے طاقت کے بے دریغ استعمال کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تہران مغربی انٹیلی جنس سروسز اور جلا وطن ایرانی کردوں پر مظاہروں کو ہوا دینے ، انہیں منظم کرنے اور ایران میں خانہ جنگی کو بھڑکانے کا الزام لگاتا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔)