|
ویب ڈیسک — انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تھرڈ کمیٹی نے 20 نومبر کو ایران میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے بارے میں ایک قرارداد کی منظوری دی۔
قرار داد میں ایران میں سزائے موت کے بڑھتے ہوئے واقعات کی مذمت کی گئی تھی اور اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں ’جبری اعترافِ جرم کی بنیاد پر اور شفاف عدالتی کارروائی‘ کے بغیر سزائے موت دی جاتی ہے۔
اسمبلی نے ایران میں نابالغ افراد کو سزائے موت دینے کا سلسلہ جاری رکھنے پر بھی اظہارِ مذمت کیا ہے اور ’بڑے پیمانے پر منظم انداز میں جابرانہ گرفتاریوں اور حراستوں‘ پر تہران کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے قرارداد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یہ مغرب کے لیے غیر معمولی سیاسی اور اخلاقی بے توقیری کا باعث ہے۔‘‘
بقائی نے کہا کہ ’’قرارداد میں اس بات کے واضح اشارے موجود ہیں کہ انسانی حقوق کے قابلِ احترام تصور کو کس طرح آزاد اقوام پر دباؤ ڈالنے کے لیے بطور آلہ استعمال کیا جارہا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایران بطور ایک جمہوری ملک خود کو انسانی حقوق کے تحفظ اور اپنے آئین میں واضح کیے گئے اصولوں کی بنیاد پر اپنی بین الاقوامی ذمے داریاں ادا کرنے کا پابند سمجھتا ہے۔
ایران کا یہ دعوی گمراہ کُن ہے۔
ایران دنیا کے ان چند ہی ممالک میں شامل ہے جہاں جرم کے ارتکاب کرنے والے نابالغ افراد کو سزائے موت دی جاتی ہے۔
ایران میں زیرِ حراست افراد کو شفاف عدالتی کارروائی کا موقع نہیں دیا جاتا اور ان سے جبراً حاصل کیے گئے اعترافی بیانات کی بنا پر سزائیں سنائی جاتی ہیں۔
ایرانی عدالتوں سے دی جانے والی موت کی سزاؤں میں سے زیادہ تر منشیات سے متعلقہ جرائم پر دی جاتی ہیں۔
ایران نے اقوامِ متحدہ کے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن (آئی سی سی پی آر) کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن منظم انداز میں اس کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتا ہے۔
آئی سی سی پی آر 1966 میں منظور ہوا تھا اور اس میں سزائے موت ختم نہ کرنے والے ممالک کے لیے یہ نکات شامل کیے گئے تھے:
- سزائے موت انتہائی سنگین جرائم کے لیے رکھی جائے گی۔
- اس سزا کا اطلاق 18 سال سے کم عمر افراد اور حاملہ خواتین پر نہیں ہوگا۔
- کسی کو خلافِ قانون حراست میں نہیں رکھا جائے گا۔
- زیرِ حراست افراد کے ساتھ انسانیت کا سلوک کیا جائے گا اور ان کے وقار اور شفاف عدالتی کارروائی کا حق تسلیم کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یورپی ملک ناروے میں قائم ایک غیر منافع بخش تنظیم ’ایران ہیومن رائٹس‘ کے مطابق 2010 سے 2023 کے درمیان ایران نے ایسے 70 افراد کو سزائے موت دی ہے جو جرم کے ارتکاب کے وقت نابالغ تھے۔
اگست 2022میں برطانوی ہیومن رائٹس گروپ ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ ایران میں نو سال کی لڑکی اور 15 سال کے لڑکے کو سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے اندازوں کے مطابق 2021 کے دوران ایران میں 85 نابالغ افراد سزائے موت کے منتظر تھے اور ان میں سے اکثر ’پس ماندہ طبقات‘ سے تعلقات رکھنے والے تھے۔
ایران ہیومن رائٹس کے مطابق عدالتی نظام میں شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے سزائے موت کے منتظر نابالغ افراد کی درست تعداد نامعلوم ہے۔
ایران میں 23-2022 کے دوران 22 سالہ کرد مہسا امینی کی موت سے جنم لینے والی تحریک ’زن، زندگی، آزادی‘ کے بعد سزائے موت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
امینی ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ انہیں ’نامناسب‘ انداز میں اسکارف پہننے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران نے 2023 میں 853 افراد کو سزائے موت دی ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 48 فی صد زائد ہیں۔ اس کے بقول ان سزاؤں کا مقصد لوگوں میں خوف پھیلانا اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دستیاب ریکارڈ کے مطابق سزائے موت پانے والے افراد میں سے 20 فی صد کا تعلق ایران کی بلوچ کمیونٹی سے ہے جو آبادی کا پانچ فی صد ہیں۔
ایران ہیومن رائٹس کے مطابق ایران میں 56 فی صد سزائیں منشیات سے متعلقہ جرائم پر دی گئی ہیں۔ ایسا آئی سی سی پی آر کے اس موقف کے باوجود کیا جاتا ہے جس کے مطابق سزائے موت صرف انتہائی سنگین جرائم کے لیے ہونی چاہیے۔
اسی تنظیم کے مطابق ایران میں 2023 کے دوران ’زن، زندگی، آزادی‘ سے متعلقہ آٹھ مظاہرین کو موت کی سزائیں دی گئی ہیں۔
SEE ALSO: سعودی عرب: رواں سال 21 پاکستانیوں سمیت 100 سے زائد غیر ملکیوں کو سزائے موتایرانی عدالتوں سے دی جانے والی سزاؤں میں 34 فی صد قتل کے الزامات میں دی جاتی ہے۔
ایرانی حکام کا معمول ہے کہ وہ موت سمیت دیگر مقدمات کو انجام پہنچانے کے لیے جبری طور پر حاصل کیے گئے اعترافِ جرم کے بیان پر انحصار کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ اس سے پہلے بھی رپورٹ کرچکا ہے کہ ایران کے ریاستی میڈیا پر جبری اعترافِ جرم نشر کیے جاتے ہیں جب کہ ایسے اقبالی بیان عدالت میں قابلِ قبول نہیں ہوتے اور بین الاقوامی اور ایرانی قانون میں بھی ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
متاثرہ افراد کے ایسے بیانات سامنے آ چکے ہیں کہ ایرانی حکام اقبالی بیان لینے کے لیے روشنیوں، کٹرز، تاروں وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔
کئی بار ملزمان کو نشہ آور ادویات دے کر یا طویل عرصے تک قیدِ تنہائی میں رکھ کر بھی اقبالی بیان حاصل کیا جاتا ہے۔
رواں برس اگست میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ ایرانی حکام نے اقلیتی کرد کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ رضا رسائی کو مہسا امینی سے متعلقہ احتجاج سے تعلق کی بنیاد پر ’انتہائی غیر شفاف عدالتی کارروائی‘ کے بعد سزائے موت دی تھی۔
ایمنسٹی کا کہنا تھا کہ ایرانی حکام نے رسائی کو مار پیٹ، بجلی کے جھٹکے لگانے، گلا گھونٹنے اور جنسی تشدد کرکے اقبالی بیان حاصل کیا تھا۔
رسائی وہ دسویں شخص ہے جنھیں امینی سے متعلقہ احتجاج سے تعلق کی بنیاد پر سزائے موت دی گئی۔