ایران کے وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ ان کے ملک اور چھ بڑی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدہ ایک ایسا "موقع ہے جسے گنوایا نہیں جانا چاہیے"۔
نیویارک یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ فریقین 30 جون تک حتمی معاہدے پر پہنچنے کے لیے "مسلسل" کام کر رہے ہیں اور ایران اس عمل کے لیے پرعزم ہے۔
ایران اور برطانیہ، فرانس، روس،چین، امریکہ اور جرمنی کے مابین معاہدے کے لیے خدوخال پر دو اپریل کو سوئٹزرلینڈ میں اتفاق ہوا تھا۔
ایرانی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ "یہ ایک اچھا معاہدہ ہے۔۔۔ یہ بہترین نہیں ہے، یہ ہمارے، امریکہ اور یورپی یونین کے شراکت داروں کے لیے بہترین نہیں ہے۔ لیکن یہی بہترین تھا جو ہم حاصل کر سکتے تھے۔ اور میرے خیال میں یہ متوازن ہے۔"
گو کہ تہران میں بعض یہ کہہ کر معاہدے کی مخالف کر رہے ہیں کہ اس سے مغرب کو ایران کی فوجی تنصیبات تک رسائی مل جائے گی، لیکن ایرانی سفارتکار کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت بین الاقوامی اعتماد کو فروغ دینے کے لیے جوہری عدم پھیلاو کے میثاق کی اضافی شقوں پر عمل کرنے پر بھی رضا مند ہے۔
ایران کا اصرار رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام ہتھیار بنانے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
جواد ظریف نے کہا کہ اگر 30 جون تک معاہدہ ہو جاتا ہے تو انھیں توقع ہے کہ سلامتی کونسل چند دنوں میں یہ معاہدے کی توثیق اور پابندیاں ختم کرنے کے لیے قرارداد پیش کر دے گی۔
"یہ قرارداد معاہدے کی توثیق کرے گی۔ تمام گزشتہ قراردادوں کو ختم کر دے گی بشمول تمام پابندیوں کی قراردادیں، یہ یورپی یونین اور امریکی تعزیرات ختم کرنے کا موقع دے گی۔"
امریکی کانگریس کے بعض ارکان اس معاہدے اور تعزیرات ختم کرنے سے متعلق مزاحم ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ایران کی طرف سے خطرے اور ماضی می دہشت گرد گروپوں کی حمایت کی وجہ سے تہران پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ کی طرف سے کسی بھی معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے کا پابند ہے۔
"میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ ہوتا ہے اور امریکہ اس سے روگردانی کرتا ہے تو وہ دنیا میں خود کو تنہا کرنے کا خطرہ مول لے گا۔"
انھوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی طرف سے مسلسل مخالفت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
"یہ مضحکہ خیز ہے کہ نیتن یاہو ہر کسی کے لیے جوہری عدم پھیلاو کے گورو بن گئے ہیں۔ وہ 400، 400 جوہری ہتھیاروں رکھتے ہیں جو جوہری عدم پھیلاو میثاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حاصل کیے گئے۔"
اسرائیل جوہری عدم پھیلاو کے میثاق کا رکن نہیں ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ ڈیمونا کی جوہری تنصیب میں اس کے جوہری ہتھیار موجود ہیں، لیکن وہ سرکاری طور پر اسے تسلیم نہیں کرتا۔
امریکہ میں قائم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کا اندازہ ہے کہ اسرائیل کے پاس 80 سے 100 جوہری ہتھیار ہیں۔