اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات میں کئی ماہ سے جاری کشیدگی کے بعد اگلے ہفتے صدر براک اوباما اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ایران جوہری معاہدے کے متنازع مسئلے پر بات چیت ہو گی۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب کے دوران ایران جوہری معاہدے پر امریکہ کی قیادت میں ہونے والے مذاکرات پر شدید تنقید کی تھی۔ کچھ ڈیموکریٹک ارکان نے اسے صدر اوباما کی توہین قرار دیا تھا۔
جوہری معاہدہ طے پانے کے بعد صدر اوباما نے نیتن یاہو کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ ’’جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران اسرائیل، امریکہ اور دنیا کے لیے اس ایران سے بہت زیادہ خطرناک ہے جو پابندیاں ہٹائے جانے سے فائدہ اٹھائے۔‘‘
اسی تناظر میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات 9 نومبر کو وائٹ ہاؤس میں ہو گی۔ دونوں رہنما اپنے دور اقتدار میں تیرہویں مرتبہ مل رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا کہ اس ملاقات میں صرف ایران پر ہی بات چیت نہیں ہو گی بلکہ داعش کے خلاف جنگ اور اسرائیل کی سلامتی بڑھانے پر بھی غور کیا جائے گا۔
فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیلی شہریوں پر چاقو سے حملوں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں فلسطینیوں کی اموات سے علاقے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
اکتوبر میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے فلسطین اور اسرائیل میں تشدد کی مذمت کرتے ہوئے فریقین پر بیان بازی کم کرنے پر زور دیا تھا۔ انہوں نے دوریاستی حل کے لیے امریکی کوششوں کی ناکامی کا بھی اعتراف کیا تھا۔
جونز ہوپکنز یونیورسٹی کے ڈینیئل سرور نے کہا کہ یہودی آبادکاری کے مسئلے پر نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کے سوا صدر اوباما کچھ نہیں کر سکتے۔
’’وہ (اسرائیل) آبادیوں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مغربی کنارے پر اسرائیلی موجودگی کو بڑھا رہے ہیں۔ اور یہ امریکی اور فلسطینی نقطہ نظر سے ناقابل قبول ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سب جاری نہیں رہے گا۔‘‘
بہت سے سابق امریکی صدور کی طرح صدر اوباما بھی صدرات چھوڑنے سے پہلے علاقے میں امن کے لیے آخری کوشش کر سکتے ہیں، مگر مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں کی طرف سے سیاسی عزم کی عدم موجودگی میں یہ کوشش بارآور ثابت نہیں ہو گی۔