چار دہائیوں کی تلاش اور بین الاقوامی قانونی جنگ کے بعد تین ہزار سال پرانی چمکدار سجی ہوئی اینٹوں پر مشتمل قدیم نوادرات ایران کے قومی عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھ دیے گئے ہیں۔
شیر اورانسانی سروں کے ساتھ پروں والی گائے، بکری کے سینگوں والےگھوڑے اور بیل، گھٹنے ٹیکے مرد اور عورتیں اور دیگر افسانوی شخصیات کے خاکوں سے سجے یہ نوادرات پہلی صدی قبل مسیح میں شمال مغربی ایران میں رہنےوالے قدیمی ایرانی مانیئنزنے تخلیق کیے تھے ۔
ان اکیاون مربع اینٹوں پر مشتمل نوادرات کو سیاہ، بھورے، ہلکے نیلے، پیلے اور سفید پس منظر پر چکمدار کوٹنگ کے ساتھ پینٹ کیا گیا ہے۔ میوزیم کے ماہر آثار قدیمہ یوسف حسن زادے نے خبررساں ادارے، اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی دریافت اور وطن واپسی ایک ناقابل یقین اور مسلسل مہم جوئی کا نتیجہ ہے۔
یہ مشرقِ وسطیٰ اور افریقی ممالک کے ان چوری شدہ نوادارات کی بازیابی کی تازہ ترین مثال بھی ہےجومغربی ممالک میں گم تھے۔
حسن زادے کے مطابق کہانی کا آغاز 1979میں اسلامی انقلاب کے بعد ہوا جب ایک کسان مرزا علی کو اپنے کھیت میں کاشت کرتے ہوئے پینٹ شدہ سرامک اینٹیں ملیں جو مغربی آذربائیجان صوبے میں اس کے گاؤں کے قریب ایک مندر کو سجانے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔
عجائب گھر میں نمائش کا اہتمام کرنے والے حسن زادے نے کہا کہ لوگ حکومتی کنڑول نہ ہونے کی وجہ سے ان چکمدار اینٹوں کو لوٹ کر فروخت کررہے تھے۔
ایک منفرد مجموعہ:
چند برس بعد 1985میں عراق کے ساتھ جنگ کے دوران ایرانی حکام نے ماہرینِ آثار قدیمہ کے ایک گروپ کوفوجیوں کی حفاظت میں اس گاؤں میں بھیجا ، انھوں نے کھدائی شروع کی اور کچھ اینٹیں نکالیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی کیونکہ بہت سے نوادرات پہلے ہی نکالے جاچکے تھے۔
ماہر آثار قدیمہ نےکہا کہ اسمگلروں نے ان میں سے کچھ کو پہلے ہی بیرون ملک بھیج دیا تھا جہاں ایک بڑی تعداد نجی ذخیروں اور عجائب گھروں میں پہنچ چکی تھی۔
حسن زادہ نے کہا کہ کہانی نے ایک نیا موڑ اس وقت لیا جب برٹش میوزیم کو معلوم ہوا کہ ایک ایرانی خاندان نے اطالوی سوئس سرحد پر واقع چیاسو میں چمکیلی اینٹوں کا ایک سیٹ فروخت کرنے کی پیشکش کی ہے ۔ انیس سواکیانوے میں میوزیم نے اپنے ایک کیوریٹر جان کرٹس کویہ کولیکشن خریدنے کے لیے بھیجا، لیکن کرٹس نے محسوس کیا کہ اینٹیں مغربی آذربائیجان سے آئی ہیں۔ انہوں نے برٹش میوزیم اور دیگر یورپی عجائب گھروں کو مشورہ دیا کہ وہ اسے نہ خریدیں کیونکہ یہ ایک منفرد کولیکشن ہے جسے تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے اور اسے اس کے اصل ملک میں واپس جانا چاہیے۔
کولیکشن کے ایرانی مالک کا نظریہ مختلف تھا ۔وہ اسے واپس کرنے کے لیے تیارنہیں تھا۔
تہران میں قائم عجائب گھر نے ایک بیان میں کہا کہ دو ہزار آٹھ میں سوئس پولیس نے ان اشیا کو قبضے میں لے لیا ، عدالت میں مقدمہ چلا، ایران میں کھدائی کی نگرانی پر مامور فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ ریمی بوچارلٹ نے اس کولیکشن کی شناخت کی ۔
قومی عجائب گھر کی جانب سے دو ہزار پندرہ میں دائر کردہ مقدمے اور ایرانی سفارتکاروں کے دباؤ کے ساتھ قانونی کارروائی میں ایک دہائی سے زائد کا عرصہ لگا ۔
منگل سے ان اینٹوں کی نمائش کرنے والے میوزیم کے کیوریٹر جبرائیل نوکنڈے نے کہا کہ آخر کار 20دسمبر 2020کو یہ کولیکشن ہمارے پاس واپس آگیا۔
اکتوبر 2019میں ایک اور قانونی کارروائی مکمل ہوئی جب نیشنل میوزیم نےامریکہ سے واپس لائی گئی تین سو کےقریب میخ کی شکل کی مٹی کی تختیوں کی ایک نمائش کا آغاز کیا ۔ دیگر کولیکشن بھی واپس آگئے ہیں۔
نوکنڈے نے جو خود بھی ماہرآثار قدیمہ ہیں کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایران میں رہنے والے ایک فرانسیسی کی اولاد میں سےایک نے گزشتہ سال پیرس میں ایران کے ثقافتی مشیر سے رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے پاس ایرانی نوادرات کا ذخیر ہ ہے۔
یہ ذخیرہ کانسی کے دور سے اسلامی دور تک کی انتیس اشیاء تھیں ، انہیں بھی نمائش کے لیےرکھ دیا گیا ہے جبکہ چوری شدہ دیگر نوادرات کی بازیابی کی کوششیں جاری ہیں۔ نوکنڈے نے کہا کہ ہم اس سلسلے میں امریکہ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا سے بھی بات چیت کررہے ہیں۔