شام میں ہلاک ہونے والے ایرانی فوجی کمانڈر کی تدفین

فائل

بعض مغربی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ مقتول کمانڈر شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج کی تربیت اور انہیں منظم کرنے کی کوششوں کے نگران تھے۔

گزشتہ ہفتے شام میں حکومت مخالف باغیوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے ایرانی فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر کی ایران میں سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کردی گئی ہے۔

نادر حامد ایرانی فوج 'پاسدارانِ انقلاب' کے رضاکار دستوں 'بسیج' کے کمانڈر تھے جو گزشتہ ماہ شامی فوجیوں اور باغیوں کے درمیان ہونے والی ایک جھڑپ میں زخمی ہوگئے تھے۔

کمانڈر حامد کا شامی فوج کے ایک اسپتال میں علاج جاری تھا جہاں وہ گزشتہ ہفتے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔

ایرانی حکام نے ذرائع ابلاغ کو یہ بتانے سے گریز کیا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب میں نادر حامد کس عہدے پر فائز تھے۔

لیکن بعض مغربی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ مقتول کمانڈر شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج کی تربیت اور انہیں منظم کرنے کی کوششوں کے نگران تھے۔

ایک ایرانی خبر رساں ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نادر حامد دمشق میں واقع بی بی زینب کے مزار کو "شدت پسندوں کے حملوں سے بچانے" کے لیے شام گئے تھے۔

نادر حامد حالیہ ہفتوں میں شام میں باغیوں کے حملوں میں ہلاک ہونے والے ایران کے چوتھے سینئر فوجی افسر ہیں۔

ان سے قبل 12 اکتوبر کو شام کے ایک نامعلوم مقام پر باغیوں کے حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے دو اعلیٰ افسران میجر جنرل فرشاد حسین زادے اور بریگیڈیئر حامد مختار بند ہلاک ہوگئے تھے۔

میجر جنرل فرشاد پاسدارانِ انقلاب کے خصوصی دستے 'سیبیرین بریگیڈ' کے سابق سربراہ جب کہ مختار بند جنوب مغربی ایران میں تعینات پاسدارانِ انقلاب کے فرسٹ بریگیڈ کے سابق چیف آف اسٹا ف تھے۔

اس سے قبل آٹھ اکتوبر کو حلب شہر کے نواح میں شامی باغیوں کے ایک حملے میں ایرانی فوج کے بریگیڈیئر جنرل حسین حمدانی مارے گئے تھے جو شام میں اب تک ہلاک ہونے والےا یرانی فوج کے اعلیٰ ترین افسر ہیں۔

حسین حمدانی شام میں صدر بشار الاسد کی فوج کے ہمراہ لڑائی میں شریک ایرانی فوجی دستوں کے سربراہ تھے جن کے قتل کو ایران کے لیے شام کے محاذ پر ایک بڑا دھچکا قرار دیا جارہاہے۔

ایرانی حکومت شام میں اپنے لڑاکا فوجی دستوں کی موجودگی سے انکاری رہی ہے اور اس کا موقف رہا ہے کہ شام میں موجود اس کے فوجی اہلکاروں کا کردار باغیوں کے خلاف اسدحکومت کو معاونت اور مشاورت فراہم کرنے تک محدود ہے۔

لیکن مغربی اور علاقائی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ایرانی فوجی دستے اور سیکڑوں رضاکار شام میں گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے جاری خانہ جنگی کے آغاز سے مسلح کارروائیوں میں شریک ہیں اور شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑائی میں حصہ لیتے ہیں۔

شامی حکومت نے شمالی شہر حلب کا قبضہ باغیوں سے واپس چھیننے کے لیے رواں ماہ ایک بڑے حملے کا آغاز کیا ہے جس میں شرکت کے لیے ایران نے پہلی بار باقاعدہ اعلان کرکے اپنے فوجی دستے شام بھیجنے شروع کیے ہیں۔