سیستان بلوچستان میں کارروائی، 10 ایرانی اہلکاروں کو قتل کرنے والے عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ

  • ایرانی فورسز نے ڈرون کارروائی میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
  • فورسز کے مطابق کارروائی میں چار شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں جب کہ چار کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
  • رپورٹس کے مطابق بعض عسکریت پسند فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
  • ان عسکریت پسندوں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک دن قبل پولیس پر ہلاکت خیز حملہ کیا تھا۔
  • عسکریت پسندوں کے حملے میں 10 اہلکار مارے گئے تھے۔

ویب ڈیسک—ایران کی فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے جنوب مشرق میں ایک کارروائی کے دوران اُن چار دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے جو ایک روز قبل پولیس پر تفتان میں ہلاکت خیز حملے میں ملوث تھے۔

ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے علاقے تفتان میں حملے میں 10 پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ یہ شدت پسندوں کا پاکستان اور ایران کی سرحد پر ایرانی فورسز پر ہلاکت خیز حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

تفتان ایرانی دارالحکومت تہران سے لگ بھگ 1200 کلومیٹر دور ہے۔ صوبہ بلوچستان سیستان کے اس علاقے میں سنی شدت پسند تنظیم 'جیش العدل' متحرک ہے۔ اس تنظیم کا مرکز پاکستان کے صوبے بلوچستان کو قرار دیا جاتا ہے۔

جیش العدل نے سوشل میڈیا میسجنگ ایپ 'ٹیلی گرام' پر ایرانی پولیس پر حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔

ایران کے خبر رساں ادارے 'تسنیم نیوز ایجنسی' کے مطابق ایرانی فورسز نے پولیس پر حملے میں ملوث دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون آپریشن کیا ہے۔ ڈرون حملے میں کم از کم چار عسکریت پسندوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ایرانی فورسز نے چار عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ البتہ ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ کچھ عسکریت پسندوں کے فرار ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

سیستان بلوچستان ایران کا وہ صوبہ ہے جس کی طویل سرحد پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ساتھ لگتی ہے۔ یہ ایران کا غریب ترین خطہ قرار دیا جاتا ہے۔

SEE ALSO: سنی تنظیم ’جیش العدل‘ ایران کا ہدف کیوں ہے؟

اس صوبے میں زیادہ تر بلوچ نسلی اقلیت آباد ہے جو سنی مسلم ہیں جب کہ ایران میں اہلِ تشیع مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اقتدار بھی اسی اکثریت کے پاس ہے۔

ایران کی فورسز کی اس خطے میں بلوچ اقلیت باغی عناصر، شدت پسند سنی گروہوں اور منشیات کے اسمگلروں سے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔

(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)