فریقین کی جانب سےجاری کیے جانے والے ایک مشترکہ بیان میں مذاکرات کے حالیہ دور کو "بامقصد اور فائدے مند" قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مذاکرات کار ویانا میں سات اپریل سے دوبارہ بات چیت کریں گے۔
واشنگٹن —
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے نمائندوں نے کہا ہے کہ تہران کے جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات کا حالیہ دور سات اپریل تک ملتوی کردیا گیا ہے۔
فریقین کی جانب سے بدھ کو جاری کیے جانے والے ایک مشترکہ بیان میں مذاکرات کے حالیہ دور کو "بامقصد اور فائدے مند" قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مذاکرات کار ویانا میں سات اپریل سے دوبارہ بات چیت کریں گے۔
بدھ کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں عالمی طاقتوں کی اعلیٰ مذاکرات کار اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے ایک پریس کانفرنس میں مشترکہ بیان پڑھ کر سنایا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کے حالیہ دور کے دوران فریقین نے ایران کے یورینیم افزودگی کے منصوبے، ارک کے مقام پر بھاری پانی کے ری ایکٹر کی مجوزہ تعمیر اور ایران کے خلاف عالمی پابندیوں پر بات کی۔
محترمہ ایشٹن نے مذاکرات کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
مذاکرات سے منسلک ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ فریقین کے لیے یورینیم کی افزودگی اور ارک کے ایٹمی ری ایکٹر پر موجود اختلافات دور کرنا خاصا مشکل ہوگا۔
تاہم، امریکی اہلکار کے بقول، ان اختلافات کے باوجود تمام فریق ایران کے جوہری پروگرام پر پہلے طے کی گئی چھ ماہ کی ڈیڈلائن سے قبل کسی معاہدے پر اتفاق کے لیے کوشاں ہیں۔
ایران کےساتھ مذاکرات کرنے والی عالمی طاقتوں میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ، روس، چین، فرانس اور برطانیہ- کے علاوہ جرمنی کے نمائندے شامل ہیں جن کی قیادت کیتھرین ایشٹن کر رہی ہیں۔
گزشتہ سال کے اختتام پر فریقین کے درمیان ایک عبوری معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت ایران نے بعض حساس جوہری سرگرمیاں ترک کردی تھیں جس کے عوض اس پر عائد بعض اقتصادی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔
فریقین کی جانب سے بدھ کو جاری کیے جانے والے ایک مشترکہ بیان میں مذاکرات کے حالیہ دور کو "بامقصد اور فائدے مند" قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مذاکرات کار ویانا میں سات اپریل سے دوبارہ بات چیت کریں گے۔
بدھ کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں عالمی طاقتوں کی اعلیٰ مذاکرات کار اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے ایک پریس کانفرنس میں مشترکہ بیان پڑھ کر سنایا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کے حالیہ دور کے دوران فریقین نے ایران کے یورینیم افزودگی کے منصوبے، ارک کے مقام پر بھاری پانی کے ری ایکٹر کی مجوزہ تعمیر اور ایران کے خلاف عالمی پابندیوں پر بات کی۔
محترمہ ایشٹن نے مذاکرات کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
مذاکرات سے منسلک ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ فریقین کے لیے یورینیم کی افزودگی اور ارک کے ایٹمی ری ایکٹر پر موجود اختلافات دور کرنا خاصا مشکل ہوگا۔
تاہم، امریکی اہلکار کے بقول، ان اختلافات کے باوجود تمام فریق ایران کے جوہری پروگرام پر پہلے طے کی گئی چھ ماہ کی ڈیڈلائن سے قبل کسی معاہدے پر اتفاق کے لیے کوشاں ہیں۔
ایران کےساتھ مذاکرات کرنے والی عالمی طاقتوں میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ، روس، چین، فرانس اور برطانیہ- کے علاوہ جرمنی کے نمائندے شامل ہیں جن کی قیادت کیتھرین ایشٹن کر رہی ہیں۔
گزشتہ سال کے اختتام پر فریقین کے درمیان ایک عبوری معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت ایران نے بعض حساس جوہری سرگرمیاں ترک کردی تھیں جس کے عوض اس پر عائد بعض اقتصادی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔