سوئٹز رلینڈ کےحکام سے کی جانے والی ایک قانونی شکایت میں کہا گیا ہے کہ ایران کے صدر رئیسی کو جنیوا کے متوقع دورے پر، حکومت مخالفین کو ختم کرنے کی کوششوں سے تعلق کی پاداش میں گرفتار کر کے، انسانیت کے خلاف جرائم کے لئے فرد جرم عائد کی جائے۔
SEE ALSO: ایران میں نومبر میں کم از کم ایک سو افراد کو موت کی سزا: حقوق انسانی گروپاس شکایت میں سوئس وفاقی وکیل استغاثہ آنڈریاس ملر سے کہا گیا ہے کہ وہ 1988 میں ، مبینہ ماورائے عدالت موت کی سزاؤں اور انسانیت کے خلاف دوسرے جرائم میں صدر ابراہیم رئیسی کےمبینہ طور پر ملوث ہونے کے لئے انکی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمہ کو یقینی بنائیں۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے گلوبل ریفیوجی فورم میں شرکت کے لئے صدر رئیسی کی وہاں آمد متوقع تھی، جو بدھ سے شروع ہو رہا ہے۔
لیکن اقوام متحدہ نے پیر کی شام کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبدلہیان ، ایرانی وفد کی قیادت کریں گے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رئیسی اس فورم میں شرکت نہ کریں۔
انکے خلاف اس قانونی شکایت پر ،جسے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے دیکھا ہے، پیر کی تاریخ درج ہے۔
سوئٹز رلینڈ کے وکیل سرکار کے دفتر نے فوری طور پر تصدیق نہیں کی کہ اسے شکایت موصول ہو گئی ہے۔
یہ درخواست1988 کے عشرے میں ایران میں حکومت کے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کے تین مبینہ متاثرین کی جانب سے دی گئی ہے۔
حقوق انسانی کے گروپ1988 کے موسم گرما میں چند ماہ کے اندر جب عراق کے ساتھ ایران کی جنگ ختم ہو رہی تھے، ایرانی جیلوں میں قید ہزاروں لوگوں کو، مبینہ طور پر ماورائے عدالت موت کی سزائیں دینے پر انصاف کےحصول کے لئے طویل عرصے سے مہم چلا رہے ہیں۔
جو لوگ اسوقت مارے گئے تھے وہ بیشتر ایران کی عوامی مجاہدین تنظیم کے حامی تھے جسے مختصر طور پر۔ ایم ای کے یا پی ایم او آئی کہا جاتا ہے۔
یہ وہ گروپ ہے جسے ایران ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ اور جس نے جنگ میں بغداد کی حمایت کی تھی۔
SEE ALSO: فلسطینیوں کو نیم برہنہ کر کے حراست میں لینے پر شدید غم و غصہپیر کے روز کی شکایت کے پیچھے کار فرما کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی طور پر رئیسی کی شناخت کر سکتے ہیں جو اس کمیشن کا حصہ تھے جس نے کریک ڈاؤن کے دوران ہزاروں مقید مخالفین کو موت کی سزائیں دی تھیں۔
اصل درخواست دہندہ رضا شمیریانی کو 1981 میں گرفتار کیا گیا تھا اور شکایت کے مطابق وہ ڈیڑھ سو سےکم ان قیدیوں میں سے ایک تھے جو انیس سو اٹھاسی کے کریک ڈاؤن میں بچ گئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق قیدیوں کی کل تعداد پانچ ہزار تھی۔
رئیسی اس وقت تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے کے طور پر کام کر رہے تھے۔
بقیہ دو درخواست دہندگان بھی1988 میں ایرانی قید خانوں میں تھے۔ اور شکایت کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ وہ رئیسی کی ڈیتھ کمیشن کے رکن کی حیثیت سے شناخت کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس قانونی شکایت کے علاوہ رئیسی کی اقوام متحدہ کی ریفیوجی فورم میں شرکت پر ناپسندیدگی کے اظہار کے لئےبھی ایک بین الاقوامی مہم جاری ہے۔
جو ماضی میں انکے ملوث ہونے اور بقول انکے جرائم کے سلسلے میں ان پر مقدمہ چلانے کے لئے اصرار کرتی ہے۔
جب اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر سے جو فورم کا میزبان ہے پٹیشن کے بارے میں پوچھا گیا تو ادارے نے اے ایف پی کو بتایا ایران ، اقوام متحدہ کا رکن ہے۔ اس لئے اسےگلوبل ریفیوجی فورم میں مدعو کیا گیاہے۔
ادارے کے ایک ترجمان نے ای میل میں کہا کہ ایران گزشتہ چالیس برس سے زیادہ عرصے سے، پناہ گزینوں کے بڑے میزبان ملکوں میں سے ایک رہا ہے۔ اور یہ کہ ایرانی وفد کی قیادت اسکے وزیر خارجہ کریں گے۔
آیڈیا کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ ضینیوا پہنچ گئے ہیں۔
اس رپورٹ کے لئے مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔