ایرانی صدر: ہم مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی وجہ نہیں بننا چاہتے کیونکہ نتائج تبدیلی کے قابل نہیں ہوںگے

ایران کے صدر مسعود پیزشکیان تہران میں 16 ستمبر 2024 کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، فوٹو اے ایف پی

  • اسرائیل ایران کو اسرائیل اورلبنان میں حزب اللہ کے درمیان تنازعے میں شامل ہونے پر اکسا کر مشرق وسطیٰ کو ایک مکمل جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے: ایرانی صدر پزشکیان۔
  • وہ جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے نیویارک پہنچنے پر انہوں نے صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کر رہے تھے ۔
  • انہوں نے کہا ’’ہم مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی وجہ نہیں بننا چاہتے کیونکہ اس کے نتائج ناقابل تبدیلی ہوں گے۔‘‘
  • انہوں نے مزید کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ "یہ اسرائیل ؎ ہے جو یہ مکمل تصادم چاہتا ہے ۔"

ایرانی صدر نے پیر کے روز کہا ہے کہ اسرائیل ایران کو لبنان میں تہران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے درمیان اپنے لگ بھگ ایک سال پرانے تنازعے میں شامل ہونے پر اکسا کر مشرق وسطیٰ کو ایک مکمل جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے جس کے بارے میں انہوں نے خبردار کیا کہ اس کے نتائج تبدیلی کے قابل نہیں ہو ںگے ۔‘‘

مسعود پیزشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے نیویارک پہنچنے کے بعد صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’ہم مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی وجہ نہیں بننا چاہتے کیونکہ اس کے نتائج تبدیلی کےقابل نہیں ہوں گے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں، ہم جنگ نہیں چاہتے۔ "یہ اسرائیل ہی ہے جو کوئی مکمل تصادم چاہتا ہے ۔"

نسبتاً اعتدال پسند سیاست دان پیزیشکیان ایک معقول خارجہ پالیسی کے وعدے کے ساتھ جولائی میں منتخب ہوئے تھے۔

مشرق وسطیٰ کے تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا پیزشکیان کا یہ مطالبہ اس کے بعد سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے پیر کے روز حزب اللہ کے خلاف فضائی حملوں کا ایک شدید سلسلہ شروع کیا جس نے اس دن کو اسرائیل اور تہران کے حمایت یافتہ گروپ کے درمیان تقریباً ایک سال کے تنازعے میں لبنان میں مہلک ترین دن بنا دیا ۔

ایران کے صدر تہران کے ایک اسپتال میں لبنان کے پیچرز دھماکوں کے ایک متاثرہ شخس کی عیادت کر رہے ہیں، فوٹو رائٹرز 20 ستمبر 2024

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ایران اسرائیل اور حزب اللہ کے تنازعے میں شامل ہو گا تو پیزشکیان نے کہا "ہم کسی بھی ایسے گروپ کا دفاع کریں گے جو اپنا اور اپنے حقوق کا دفاع کر رہا ہے ۔" انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی ۔

اسرائیلی فورسز اور حزب اللہ کے درمیان تقریباً روزانہ کی فائرنگ کے تبادلے سے ہزاروں لوگ سرحد کے دونوں اطراف کے قصبوں اور دیہاتوں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ ایک ایسے سفارتی حل کو ترجیح دیتا ہے جس سے حزب اللہ سرحد سے مزید پیچھے ہٹ جائے۔

تاہم، حزب اللہ کا ، جس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ہر طرح کے تنازعات سے گریز کرنا چاہتا ہے، کہتا ہے کہ صرف غزہ میں جنگ کے خاتمے سے ہی لڑائی رکے گی۔

SEE ALSO: حزب اللہ کے اسرائیل پر 100 سے زائد راکٹ فائر، ہزاروں شہری شیلٹرز میں منتقل

غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں کئی مہینوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد تعطل کا شکار ہیں۔

ایران کی علاقائی پالیسی اس کی ایلیٹ فورس پاسداران انقلاب ترتیب دیتی ہے ، جو صرف سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو جواب دہ ہے،جو ملک کی اعلیٰ ترین اتھارٹی ہیں۔

ایران کی طاقتور پاسداران انقلاب اور خامنہ ای نے ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کا عزم کیا ہے، جو کہ ان کے تہران کے دورے کے دوران ہوا تھا۔

اب تک تہران اسرائیل کے خلاف براہ راست جوابی کارروائی سے باز رہا ہے، جس نے نہ تو اس کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید کی ہے۔

SEE ALSO: اسرائیل حماس کے لیڈر ہنیہ کی موت کا مکمل ذمہ دار ہے: او آئی سی

پیزشکیان نے گزشتہ ماہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بارہا ایران کے اسرائیل مخالف موقف اور خطے بھر میں مزاحمتی تحریکوں کی حمایت کی تصدیق کی ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ایران جولائی کے آخر میں فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لے گا، پیزشکیان نے کہا کہ "ہم مناسب وقت اور جگہ پر مناسب طریقے سے جواب دیں گے"۔

SEE ALSO: حماس کے سربراہ کی ہلاکت کا جواب سخت اور مناسب ترین ہو گا: ایران

تین سینئر ایرانی عہدیداروں نے اگست میں رائٹرز کو بتایا تھا کہ تہران ہنیہ کے قتل پر اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے مغربی ملکوں اور امریکہ کے ساتھ بھر پور مذاکرات میں شامل ہے۔

ہنیہ کے قتل نے، جس کا تہران اور حماس دونوں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے، غزہ میں اسرائیل کی جنگ اور لبنان میں بگڑتے ہوئے تنازعے سےہل جانے والے والے خطے میں تہران اور اس کے دیرینہ دشمن اسرائیل کے درمیان براہ راست تصادم کے خدشات کو جنم دیا ہے۔

پیزشکیان نے کہا کہ "ہمیں بتایا گیا تھا کہ اسرائیل اور ایران کے حمایت یافتہ گروپ حماس کے درمیان ایک ہفتے کے اندر جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے گا" لیکن وہ ہفتہ کبھی نہیں آیا اور اس کے بجائے اسرائیل نے اپنے حملوں کی توسیع جاری رکھی ہے ۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔