ایران کے سرکاری میڈیانے بدھ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران اور روس نے امریکی ڈالر کی بجائے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق روس میں دونوں ممالک کے مرکزی بینکوں کے گورنروں کے درمیان ملاقات کے دوران اس معاہدے کو حتمی شکل دی گئی۔
ایران اور روس دونوں ہی ملکوں کو امریکہ کی جانب سے اقتصادی اور مالی پابندیوں کا سامنا ہے۔
ایران پر پابندیوں کی وجہ اس کا جوہری پروگرام ہے۔امریکہ اور مغربی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کررہا ہے ۔ جب کہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
SEE ALSO: ایران کے ڈرون پروگرام میں مدد دینے والے نیٹ ورک پر امریکی پابندیاں عائدروس پر پابندیاں، یوکرین پر حملے کے بعد عائد ہوئی ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک ان پابندیوں کے ذریعے روس کو یوکرین کے علاقے ہڑپ کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔
ان پابندیوں سے روس کی غیر ملکی تجارت کو بڑا دھچکا پہنچاہے اور وہ اس کے اثرات کم کرنے کے لیے نئی منڈیاں ڈھونڈ رہا ہے اور ایسے معاہدے کر رہا ہے جس میں امریکی ڈالر کی ضرورت نہ پڑے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے بتایا ہے کہ اس معاہدے کے بعد اب بینک اور معاشی گروپ مقامی کرنسیوں میں لین دین کر سکیں گے اور ایسے بینکاری نظام استعمال کر سکیں گے جن میں سوئفٹ سسٹم درکار نہیں ہوتا۔
SEE ALSO: امریکی ڈالر دنیا کی سب سے بڑی کرنسی کب تک رہے گا؟سوئفٹ ڈالر کی شرح سے کرنسیوں کے تبادلے کا ایک بین الاقوامی نظام ہے۔
روس کی قیادت میں یوریشین اکنامک یونین (ای ای یو) کے ارکان نے 25 دسمبر کو ایران کے ساتھ ایک مکمل آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
روس پر عائد مغربی پابندیوں کے بعد سے ایران، کریملن کے لیے بہت اہم ہو چکا ہے۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ فوجی تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایران نے نومبر میں کہا تھا کہ روس سے ایس یو 35 لڑاکا طیاروں، ایم آئی 28 حملہ آور ہیلی کاپٹروں اور پائلٹوں کو تربیت دینے والے یاک 130 کی ترسیل کے انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی اور کئی مغربی ممالک کا الزام ہے کہ ایران اپنے تیار کردہ ڈرونز کے ذریعے یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کی مدد کر رہا ہے۔ جب کہ ایران اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے روس کو ڈرون یوکرین کی جنگ شروع ہونے سے پہلے فراہم کیے تھے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)