ایران اور سعودی عرب ان چھ ملکوں میں شامل ہیں جو آئندہ برس سے، برازیل، روس،بھارت ، چین اور جنوبی افریقہ کے اس اقتصادی گروپ میں شامل ہو جائیں گے جسے برکس کہا جاتا ہے۔ یہ گروپ ترقی پذیر ملکوں کی آواز بڑھانے اور مغربی ممالک کے مقابلے پر ایک متوازی معاشی بلاک کے طور پر سامنے آنے کا عزم رکھتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گروپ بیجنگ اور ماسکو کے جیو پولیٹیکل مفادات کو پورا کر سکتا ہے، اور ایران اور سعودی عرب کے اس بلاک میں شامل ہونے کا مطلب خلیج فارس کے علاقے میں بیجنگ کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔
توسیع شدہ برکس کو چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات اور یوکرین کی جنگ کے سبب مغرب سے روس کے تعلقات کے انقطاع کے دوران روس اور چین درمیان ایک علامتی اتحاد کے لئے ممکنہ مہمیز کے طور پر دیکھا جارہا ہے
اس گروپ کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور 2024 میں متحدہ عرب امارات ، ارجنٹائن، مصر اور ایتھوپیا بھی برکس کے ارکان کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔
SEE ALSO: کیا ڈالر کے مقابلے پر کوئی متبادل کرنسی لانا ممکن ہے؟اگر اس وقت برکس کے ممبران کو سامنے رکھا جائے تو یہ اقتصادی گروپ دنیا کی تقریباً 40 فی صد آبادی اور 25 فی صد مجموعی عالمی پیداوار کی نمائندگی کرتا ہے۔ نئے ارکان کی شمولیت سے اس تناسب میں مزید اضافہ ہو جائے گا کیونکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران کا شمار تیل پیدا کرنے والے دنیا کے تین بڑے ممالک میں کیا جاتا ہے۔
برکس کا اجلاس 22 اگست کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں شروع ہوا اور 24 جولائی تک جاری رہا۔
اس تین روزہ اجلاس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن ذاتی حیثیت میں شریک نہیں ہوئے تاہم وہ ورچوئل طور پر کانفرنس میں شامل رہے، جس کی وجہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے ان کی گرفتاری کے لیے جاری کردہ وارنٹ تھے۔
کانفرنس میں روس کی نمائندگی روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کی اورافتتاحی اجلاس میں صدر پوٹن کی ریکارڈ شدہ تقریر سنوائی گئی۔
چین کے صدر شی نے اپنی تقریر میں مغرب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط مسلز اور بلند آواز والے ممالک دنیا کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں آپس کے اختلافات کم کرنے کی ضرورت ہے۔
گروپ کے ارکان یہ کوشش کررہے ہیں کہ رکن ممالک کے درمیان تجارت کے لیے ڈالر کی بجائے مقامی کرنسیوں کا نظام تشکیل دیا جائے۔تاہم اس منصوبے کو قابل عمل لانے پر ارکان کے درمیان فی الحال اتفاق رائے دکھائی نہیں دے رہا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کرنسی لانا جو ڈالر کا بدل بن سکے، فی الحال ممکن نہیں ہے اور راتوں رات ڈالر سے اس کا مقام نہیں چھینا جا سکتا۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ عالمی معیشت پر ڈالر کا انحصار بہت زیادہ ہے۔ فیڈرل ریزور کے مطابق 1999 سے 2019 کے درمیان براعظم امریکہ کے ممالک کی 96 فی صد تجارت ڈالر میں ہوئی۔ ایشیا کی 74 فی صد تجارت اور یورپ کی 79 فی صد تجارت بھی امریکی ڈالر میں ہی ہوئی۔
برکس کے ملکوں کے درمیان ان کی اپنی تجارتی کرنسی کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح اتفاق رائے نہیں ہے۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ایسے میں جب کہ 20 سے زیادہ ملک برکس میں شامل ہونے کے لیے درخواست دے رہے ہیں اور 20 دوسرے ملکوں نے بھی شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ یہ مغرب کے لیے ایک قسم کی ویک اپ کال ہے۔
اس خبر کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے