ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے خبردار کیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے ردعمل کے طور پر ایران ایٹمی معاہدے سے دستبردار ہونے پر غور کر سکتا ہے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایرانی وزیرخارجہ نے یہ بات ایران کے سرکاری میڈیا سے گفتگو کے دوران کی۔
ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق امریکہ سمیت عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین معاہدہ 2015 میں طے پایا تھا لیکن ایک سال قبل 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کر چکی ہے۔
یورپی ممالک ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے حق میں ہیں۔
امریکہ اور ایران کے مابین قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پراختلافات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ جس کے بعد امریکہ نے ایران پر پابندیاں مزید سخت کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
امریکہ میں صدر ٹرمپ کی دور میں ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور چند روز قبل امریکہ نے ایران سے تیل برامد کرنے والے ممالک کو دی گئی چھوٹ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گذشتہ ہفتے یہ اعلان کیا تھا کہ امریکہ ایران سے تیل کی درآمد کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں ایران سے تیل درآمد کرنے والے 8 ممالک کو دئیے گئے استثنی کو مئی سے ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔
ان ممالک میں چین، جاپان، بھارت، ترکی، جنوبی کوریا، یونان، تائیوان، اٹلی شامل ہیں۔
امریکہ کے ساتھ ایران کا ایٹمی معاہدہ جولائی 2015 میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے میں امریکہ سمیت اقوام متحدہ کے پانچ مستقل رکن چین، برطانیہ، فرانس، روس بھی شامل تھے۔ جبکہ جرمنی اور یورپی یونین بھی اس معاہدے میں شامل تھے۔
معاہدے میں ایران پر سے امریکی پابندیاں ہٹائے جانے کے عوض ایران کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے اور عدم پھیلاؤ سے متعلق فیصلے کئے گئے تھے۔
ایران کا یہ موقف رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کی ہے۔
اقوام متحدہ کے مستقل اراکین کی جانب سے امریکہ کی دستبرداری کے فیصلے پرتنقید بھی کی گئی تھی۔