ایرانی میڈیا نے بدھ کو وزارت خارجہ کے ترجمان کےحوالے سے بتایا ہے کہ ایران امریکہ کےساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے ۔
نیم سرکاری خبر رساں ادارے 'فارس' نے ترجمان نصر کنعانی کے حوالے سےبتایا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ غیر سنجیدگی کے بجائے کوئی عملی اقدام کرے ۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے منگل کو ایرانی نژاد امریکی سیامک نمازی کے معاملے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ نمازی کو 2500 دن تک ایران میں "غلط طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔"
انہوں نےٹوئٹر پر کہا کہ ،" ہم نمازی کی آزادی کےحصول اور یہ یقینی بنانے کا پختہ عزم رکھتے ہیں کہ ان کے والد سمیت وہ تمام امریکی وطن واپس آسکیں جنہیں ایران میں غلط طور پر قید کیا گیا ہے۔"
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ امریکہ کا خیال ہے کہ امریکی افراد کو ایران نے سیاسی مقاصد کے لیے قید کر رکھا ہے ، تاکہ ایرانی حکومت ان کی رہائی کے بدلے میں کوئی مفاد یا رعایت حاصل کرنے کی کوشش کر سکے۔
پرائس نے مزید کہا،"یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے جو مکروہ ہے۔ جس کی ہم ہر جگہ مذمت کرتے ہیں۔‘‘
SEE ALSO: ’ایران کو اپنے قیدیوں کی رہائی سے نہیں، پیسوں سے دلچسپی ہے‘انہوں نے کہا کہ امریکی قیدیوں کی رہائی کی کوشش 2015 میں طے پانے والے اس بین الاقوامی معاہدے کی طرف واپسی سے متعلق جاری مذاکرات سے منسلک نہیں ہے، جس میں پابندیوں میں نرمی کے بدلے ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کیا گیا تھا۔
ایک اور خبر کے مطابق امریکہ نے منگل کو کہا ہے کہ وہ جوہری معاہدے کی بحالی سے متعلق یورپی یونین کی ثالثی کی حتمی تجویز پر ایران کے ردِعمل کا جائزہ لے رہا ہے۔
منگل کو تہرا ن میں سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' نے خبر دی تھی کہ ایرانی مذاکرات کاروں نے یورپی یونین کو اپنا جواب جمع کرادیا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ وہ ابھی بھی یورپی یونین کی تجویز قبول نہیں کریں گے ، اس انتباہ کے باوجود کہ مزید کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔
یران کی سرکاری ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ " فریقین کے درمیان اختلافات تین مسائل پر ہیں ، جن میں سے دو معاملات میں امریکہ نے زبانی طور پر لچک کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اسے متن میں شامل کیا جانا چاہیے ۔ تیسرا مسئلہ معاہدے کے تسلسل کی ضمانتوں سے منسلک ہے جس کا انحصار امریکہ کی حقیقت پسندی پر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ارنا نے اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان کے حوالے سے کہا تھا کہ "امریکی فریق نے تہران کی طرف سے کیے گئے دونوں مطالبات کو زبانی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔"
واضح رہے کہ برطانیہ ، چین ، فرانس اور جرمنی نے اگست کے شروع میں ایک ماہ کے وقفےکے بعد جوہری معاہدے پر ایران کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کیے تھے۔ امریکہ ان مذاکرات میں بالواسطہ طور پرشرکت کرتا رہا ہے۔
جوہری معاہدےکی بحالی کے امکان نے تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی لانے میں مدد کی ہے۔
یہ تاریخی معاہدہ 2018 میں تب سے تعطل کا شکار ہے جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے دست بردار ہو گئے تھے اور ایران کے خلاف معیشت کو مفلوج کرنے والی اقتصادی پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی تھیں۔
ارنا نے ایک ایرانی سفارت کار کے حوالے سے ، جس کانام ظاہر نہیں کیا ، کہا کہ یورپی یونین کی تجاویز اس صورت میں قابل قبول ہیں اگر وہ ایران کو پابندیوں اور تحفظات سے منسلک متعدد نکات کے ساتھ ساتھ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کےساتھ زیرِ التوا مسائل پر یقین دہانیاں فراہم کریں۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ موادخبر رساں ادارے ' ایسوسی ایٹڈ پریس'، ' اے ایف پی اور رائٹرز ' سے لیا گیا ہے ۔