پاسداران انقلاب کے بارے میں نئی امریکی تشویش

دوحا، قطر میں 16 فروری کو تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے انتباہ کیا کہ ایران فوجی آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ انھوں نے ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے بارے میں نئی تشویش کا اظہار کیا۔ پاسداران انقلاب کو ایران کی مسلح افواج میں نمایاں مقام حاصل ہے اور ایران کا نیوکلیئر پروگرام فوج کے اسی شعبے کے کنٹرول میں ہے۔

لندن میں مقیم ایرانی صحافی علی رضا نوری زادہ کے خیال میں ایران میں طاقت کا جو ڈھانچہ ابھر رہا ہے اس کے حوالے سے وزیرِ خارجہ کلنٹن کی تشویش بجا ہے۔ مسٹر نوری زادہ جو ’سینٹر فار عرب اینڈ ایرانین‘ Center for Arab and Iranian Studies سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ جب سے محمود احمدی نژاد صدر بنے ہیں ایران مسلسل فوجی آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ’’وزیروں کی نصف تعداد یا تو براہِ راست پاسدارانِ انقلاب سے لی گئی ہے یا ان کا پاسداران انقلاب کے انٹیلی جینس یونٹ سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے۔ ایرانی پارلیمینٹ کے 90 ارکان پاسداران انقلاب کے جنرل یا کرنل ہیں یا جنرل رہ چکے ہیں۔ تمام بڑے بڑے عہدے پاسداران انقلاب کے پاس ہیں اورانہیں حکو مت سے مالی امداد ملتی ہے‘‘ ۔

لیکن عرب خاتون صحافی نادیہ بلبیسی ’’ Nadia Bilbassy‘‘ کہتی ہیں کہ عرب دنیا میں بیشتر لوگ اس طرح نہیں سوچتے۔ مڈل ایسٹ براڈکاسٹنگ سینٹر کی سینیئر نامہ نگار کہتی ہیں کہ عرب لیڈروں کو ایران کے نیوکلیئر پروگرام اور پاسداران انقلاب کی بڑھتی ہوئی طاقت پر تشویش ضرور ہے لیکن عرب دنیا میں بیشترلوگ ایران کو فوجی آمریت نہیں سمجھتے۔ ’’ایران کے معاملے میں عرب حکومتوں اورعوام کی سوچ الگ الگ ہے۔ میرے خیال میں عرب عوام میں صدر احمدی نژاد کی مقبولیت اوسط درجے سے بہت اونچے درجے تک ہے۔ عام لوگ ایران کو ایسا ملک سمجھتے ہیں جو حماس اور حز ب اللہ جیسی تحریکوں کی حمایت کرتا ہے۔ انھیں ایسی عوامی تحریکیں سمجھا جاتا ہے جو فلسطینی علاقوں میں اور جنوبی لبنان میں اسرائیلی قبضے کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ لیکن عام طور سے، لوگ ایران کو فوجی آمریت نہیں سمجھتے‘‘۔

تا ہم علی رضا نوری زادہ انتباہ کرتے ہیں کہ ہمیں علاقے میں پاسداران انقلاب کی تاریخ کو مد نظر رکھنا چاہیئے۔ وہ کہتے ہیں کہ کم ازکم گذشتہ 25 سال سے پاسدارانِ انقلاب عرب ملکوں میں بعض گروپوں کو تربیت دیتے رہے ہیں۔

یمن میں سینکڑوں یمنی شیعوں نے ان سے تربیت لی ہے۔ فلسطین میں پاسداران انقلاب نے حماس کو تربیت دی۔ عراق میں سینکڑوں شیعہ جنگجوؤں نے ان سے تربیت لی ہے۔ افغانستان میں آج کل بھی پاسداران انقلاب کا القاعدہ سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے اور القاعدہ کے بعض لیڈر اب بھی ایران میں رہ رہے ہیں۔

وزیرِ خارجہ کلنٹن نے کہا ہے کہ پاسداران انقلاب ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے محافظ بن گئے ہیں۔ نادیہ کہتی ہیں کہ اس وجہ سے ایران کا نیوکلیئر پروگرام اس کے عرب ہمسایوں خاص طور سے خلیج کی ریاستوں کے لیے سنگین خطرہ بن گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ عرب ملکوں میں کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ ایران نیوکلیئر طاقت صرف پُرامن مقاصد کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ایران علاقے میں قائدانہ کردار حاصل کرنا چاہتا ہے اوراس وجہ سے اس کے لیے نیوکلیئر طاقت حاصل کرنا ضروری ہے۔ لیکن ایران کے نیوکلیئر خطرے کی نوعیت کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ اس بارے میں نادیہ کہتی ہیں کہ ’’اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ سمیت جو پریس کو افشا کر دی گئی تھی۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کی نیوکلیئر صلاحیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل ہے جو ایران کے بارے میں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی کوبھی صحیح صورت حال کا علم نہیں کیوں کہ ہمارے پاس انٹیلی جینس موجود نہیں‘‘۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانا چاہتا ہے جو بین الاقوامی برادری کی اصل تشویش ہے تو مغرب کو ایران کے ساتھ کس قسم کا رویہ اختیار کرنا چاہیئے۔ مسٹر نوری زادہ کہتے ہیں کہ موئثر ترین طریقہ یہ ہوگا کہ ایران کے اندر حکومت کے مخالف عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے ’’ایران میں حکومت کے خلاف گرین موومنٹ ’’ Green Movement ‘‘ نامی تحریک زور شور سے چل رہی ہے۔ میرے خیال میں گرین موومنٹ کو اخلاقی مدد دینا بہت موئثر ثابت ہوگا۔ اس طرح ایران میں تیزی سے دیر پا تبدیلیاں لانے میں مدد ملے گی۔

لیکن نادیہ کو اس تجویز سے شدید اختلاف ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسا کرنا گرین موومنٹ کے لیے پروانۂموت ثابت ہوگا۔ اس طرح ایران کی حکومت کو یہ کہنے کا موقع مِل جائے گا کہ مغربی طاقتیں خاص طور سے امریکہ اور برطانیہ ایران کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں۔

دونوں صحافی ایران کے اندر مشتبہ نیوکلیئر اہداف پر فوجی حملوں کے خلاف ہیں۔ مسٹر نوری زادہ کہتے ہیں کہ فوجی طاقت کے استعمال کے نتائج امریکہ کے لیے، ایران کے ہمسایہ ملکوں ، اور ایران کے لوگوں سب کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔

نادیہ کہتی ہیں کہ ایران کی فوجی تنصیبات پر فوجی حملہ تباہ کن ہو گا اور اس سے پورے علاقے میں ہلچل پیدا ہو جائے گی۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے۔ مغربی ملکوں کے لیے یہ بڑی مشکل صورتِ حال ہے کہ وہ کیا کریں۔ ایسا لگتا ہے کہ فوجی طاقت کا استعمال عملی طور پر ممکن نہیں اور مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے۔

دونوں صحافی متفق ہیں کہ ایران کی قیادت پر اثر انداز ہونے کا سب سے موئثر طریقہ یہی ہے کہ مخصوص نوعیت کی اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں۔ اس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین کی حمایت کے لیے مسلسل کوشش کرنا ہوگی۔ اب تک چین نے زیادہ سخت پابندیوں کی مزاحمت کی ہے اور وہ اس بین الاقوامی تعطل کو دور کرنے کے لیے مزید مذاکرات پر زور دے رہا ہے۔