امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور ان کے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف دونوں ہفتے کے روز جنوب مشرقی ایشیائی دس ملکوں کی تنظیم آسیان میں شریک ہوں گے لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینیر عہدے دار نے منگل کے روز بتایا کہ دونوں کے درمیان ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
عہدے دار نے کہا کہ سنگاپور میں ہونے والے اس اجلاس میں شمالی کوریا بھی شرکت کر رہا ہے اور ایسے میں جب کہ پومپیو کے لیے ملاقات کا موقع موجود ہے، لیکن کسی بھی دوطرفہ ملاقات کا کوئی پروگرام طے نہیں کیا گیا۔
صدر ٹرمپ نے، جنہوں نے ایران کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے بدلے تہران پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم کرنے کے 2015 کے بین الاقوامی معاہدے سے امریکہ کو الگ کر لیا تھا، پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایران کے صدر حسن روحانی سے ملنا چاہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ملنے اور ان سے بات چیت میں یقین رکھتا ہوں۔ خاص طور پر جب آپ جنگ اور قحط اور ہلاکتوں اور بہت سی دوسری چیزوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں ۔ آپ کو ملنا چاہیے۔ ملنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
صدر نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے براہ راست بات چیت کا حوالہ دیا۔ انہوں نے روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ اپنی ملاقات کو بھی ایک مثال کے طور پر پیش کیا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس لیے میں یقینی طور پر ایران کے ساتھ ملوں گا اگر وہ ملنا چاہیں ۔ میں یہ نہیں جانتا کہ وہ ابھی تیار ہیں؟ اس وقت وہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں تو میں ان سے ملنے کے لیے تیار ہوں۔
جب صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا اس ملاقات کے لیے ان کی جانب سے کسی طرح کی پیشگی شرائط ہیں۔ تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی پیشگی شرط نہیں ہے۔ اگر وہ ملنا چاہتے ہیں تو میں ان سے ملوں گا۔
بعد میں کیبل ٹیلی وژن نیٹ ورک سی این بی سی سے اپنے انٹرویو میں وزیر خارجہ پومپیو نے کہا کہ صدر ٹرمپ ایرانیوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں اگر جس انداز سے وہ اپنے عوام کے ساتھ برتاؤ روا رکھے ہوئے ہیں، اس میں بنیادی تبدیلیاں کرتے ہیں، بدخواہی پر مبنی اپنے رویے میں کمی کرتے ہیں اور اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ جوہری معاہدہ اس انداز کا ہونا چاہیے جو حقیقتا جوہری پھیلاؤ کو روک سکے۔
ایران نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے راستے میں یہ چیز شامل ہے کہ امریکہ ایران، اور چین، فرانس، روس، برطانیہ، جرمنی اور امریکہ کے ساتھ طے پانے والے مشترکہ جامع ایکشن پلان میں واپس آئے۔