ایران کے خلاف امریکہ کی نئی اقتصادی پابندیوں سے پائپ لائن کے ذریعے ایرانی گیس کی پاکستان کو فروخت کے مجوزہ منصوبے کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہوگیا ہے۔
پاکستانی سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے رکن صفدر عباسی کا ماننا ہے کہ امریکی پابندیاں پاکستان اور ایران کو ملانے والے اربوں ڈالر مالیت کے مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے پر بلواسطہ طور اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
’’مغربی طاقتوں کی طرف سے اگران پابندیوں پرعملدرآمد شروع کردیا گیا توپاکستان کے لیے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل مشکل ہو جائے گی۔‘‘
سینٹر عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے بعد بین الاقوامی کمپنیاں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تعمیر میں دلچسپی نہیں لیں گی اور ان کی طرف سے سرمایہ کاری نہ ہونے سے منصوبہ مکمل کرنے میں بہت دقت پیش آئے گی جو توانائی کے بحران سے دوچار پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔
امریکہ کا الزام ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے منصوبے پر کام کررہا ہے اور اُسے ان کوششوں سے باز رکھنے کے لیے تہران پرمزید پابندیاں لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان تعزیرات کا ہدف ایران کی تیل و گیس کی صنعت ہے جہاں اب امریکی کمپنیوں کے لیے ایران کو تکنیکی معاونت اور خدمات فراہم کرنے پر بھی پابندی ہوگی۔
ان نئی پابندیوں میں ایران کی 11 کمپنیوں کے ساتھ کاروباری مراسم کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے جو امریکہ کے خیال میں ایران کے جوہری پروگرام کے لیے مالی وسائل کا بندوبست کرتی ہیں۔
امریکہ نے پہلے ہی ایران میں تیل و گیس کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
پاکستان کے وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے سینٹ میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایران کے ساتھ مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے پر تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے اور پاکستانی علاقے میں پائپ لائن بھچانے کا کام 2013 ء میں مکمل ہو جائے گا۔ جبکہ مالیاتی مشیر کی تعیناتی بھی جلد مکمل کر لی جائے گی۔
ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر لاگت کا تخمینہ ساڑھے سات ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور منصوبے میں گیس کی ترسیل کے لیے تقریباً 28 سو کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ پائپ لائن ایران سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد کوسٹل ہائی وے کے ساتھ کیرتھر رینج سے ہوتی ہوئی نواب شاہ تک جائے گی جس کے ذریعے گیس کی رسد 2016ء سے شروع ہو گی۔
پاکستان توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دیگر منصوبوں پر بھی غور کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ترکمانستان افغانستان پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبے (ٹیپی) میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔
حالیہ برسوں میں امریکہ کی حمایت سے افغانستان، پاکستان اور ترکمانستان نے ایک بار پھر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں تیز کر رکھی ہیں رواں ماہ ترکمانستان کے صدر گُلی پردی مخمدوف نے اپنے دورہ پاکستان میں گیس کی خرید وفروخت کے ابتدائی معاہدے پر دستخط بھی کئے ہیں۔ ٹیپی منصوبے کے تحت ترکمانستان سے تقریباً 1,700 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی جس پر لاگت کا تخمینہ ساڑھے سات ارب ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔