ایران نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی طاقتوں ، یعنی P5+1 کے ملکوں ، امریکہ، برطانیہ، روس، چین، اور فرانس، نیز جرمنی کے ساتھ مذاکرات کے ایک نئے دور کے لیے تیار ہے۔
لندن —
ایران نے کہا ہے کہ وہ شاید اس مہینے کے آخر میں، اپنے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں ، عالمی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ایران کا یورینیم کی افژودگی کا پروگرام جاری ہے، اور مغربی ملکوں نے اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں اور سخت کر دی ہیں ۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے گذشتہ ہفتے پابندیوں کے ایک نئے راؤنڈ پر دستخط کیے جن میں ایران کے توانائی اور جہازرانی کے شعبوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ پابندیاں ان بہت سی یک طرفہ اور کثیرالملکی پابندیوں کے علاوہ ہیں جو ایران کی صنعت اور بنکوں پر پہلے ہی عائد کی جا چکی ہیں۔
ان اقدامات کا مقصد ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو روکنا ہے۔ مغربی ملکوں کا دعویٰ ہے کہ ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اس کا پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
ایران نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی طاقتوں ، یعنی P5+1 کے ملکوں، امریکہ، برطانیہ، روس، چین، اور فرانس، نیز جرمنی کے ساتھ مذاکرات کے ایک نئے دور کے لیے تیار ہے۔
آئی ایچ ایس گلوبل انسائیٹ کے جیمی انگرام کہتے ہیں کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور ہوا ہے۔ ’’ ان پابندیوں سے ایرانیوں کے لیے سخت مالی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، بر آمدات پر پابندیوں کی وجہ سے، غذائی اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔‘‘
حالیہ مہینوں میں، ایران کے ساتھ یورپی یونین کی تجارت میں، ان اشیاء میں بھی جن کی تجارت کی اجازت ہے، ڈرامائی کمی آئی ہے۔ ڈبلیو لیگل کے چیف ایگزیکٹو نیجل کوشنر جو کمپنیوں کو ایران کے ساتھ تجارت کے معاملات میں مشورے دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی بنکوں کو امریکہ کی ناراضگی کا ڈر ہے۔
’’خطرہ یہ ہے کہ امریکی ان سے خاموشی سے بات کریں گے اور ان سے کہیں کہ وہ ایران کے ساتھ تجارت نہ کریں۔ لہٰذا وہ تجارت نہیں کریں گے اگرچہ انہیں اس کی اجازت ہے۔ میں نے کل سوئٹزر لینڈ کے ایک بنک سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ہم دواؤں اور انسانی ضرورت کی چیزوں کے لیے جو ایران جاتی ہیں، پیسہ قبول کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں ایسا کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔‘‘
کوشنر کہتے ہیں کہ ایران کو اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے ایسے ملکوں کی تلاش ہے جن پر پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔’’ممکن ہے اس میں زیادہ وقت لگے، زیادہ کام کرنا پڑے، اور مہنگی چیزیں لینی پڑیں، لیکن وہ اکثر چین جیسے ملکوں، اور شاید ترکی پر انحصار کریں گے، جنہیں پابندیوں پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف لندن کے تجزیہ کار علی فتح اللہ نجاد کہتے ہیں کہ ایران کو سب سے زیادہ پریشانی بنکوں پر پابندیوں سے ہو رہی ہے۔ ’’مالیاتی اور بینکاری کے کاروبار پر زبردست پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے معیشت کی دوسری تمام شاخیں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔‘‘
فتح اللہ نجاد کہتے ہیں کہ اگر اس مسئلے کا کوئی سفارتی حل تلاش کیا جانا ہے، تو آنے والے مذاکرات میں ان پابندیوں کے بارے میں بات چیت لازمی طور پر کی جانی چاہیئے۔
’’اپنی اقتصادی ترقی کے بارے میں، اپنی آبادی کی عافیت کے بارے میں، اپنی سول سوسائٹی کی فلاح کے بارے میں، ایرانیوں کو ملک کے اندر اور باہر بہت تشویش ہے۔ اور یہ ایسی چیز ہے جسے مذاکرات کی میز پر رکھنا بہت ضروری ہے۔‘‘
اگر ایران اور P5+1 کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں، تو تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ اس بحران کے مستقل حل کے بجائے، مختصر مدت کے ایسے اقدامات پر توجہ دی جائے گی جن سے اعتماد میں اضافہ ہو۔
اس دوران، جب صدر اوباما نے اعلان کیا کہ نئے وزیرِ دفاع کے لیے انھوں نے کس کا انتخاب کیا ہے تو واشنگٹن میں ایران کے خلاف پابندیوں پر زور شور سے بحث شروع ہو گئی۔ صدر اوباما کا انتخاب ہیں ’’وزیر دفاع کے لیے چک ہیگل‘‘۔
ہیگل سابق ریپبلیکن سینیٹر ہیں۔ ماضی میں انھوں نے ایران کے خلاف یک طرفہ پابندیوں کی مخالفت کی تھی اور اگر ایران کے ساتھ بین الاقوامی مذاکرات ناکام ہو گئے، تو ہیگل اور پینٹا گون کو امریکہ کے اس فیصلے میں شریک ہونا پڑے گا کہ ایران پر فوجی حملہ کیا جائے یا نہیں۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے گذشتہ ہفتے پابندیوں کے ایک نئے راؤنڈ پر دستخط کیے جن میں ایران کے توانائی اور جہازرانی کے شعبوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ پابندیاں ان بہت سی یک طرفہ اور کثیرالملکی پابندیوں کے علاوہ ہیں جو ایران کی صنعت اور بنکوں پر پہلے ہی عائد کی جا چکی ہیں۔
ان اقدامات کا مقصد ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو روکنا ہے۔ مغربی ملکوں کا دعویٰ ہے کہ ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اس کا پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
ایران نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی طاقتوں ، یعنی P5+1 کے ملکوں، امریکہ، برطانیہ، روس، چین، اور فرانس، نیز جرمنی کے ساتھ مذاکرات کے ایک نئے دور کے لیے تیار ہے۔
آئی ایچ ایس گلوبل انسائیٹ کے جیمی انگرام کہتے ہیں کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور ہوا ہے۔ ’’ ان پابندیوں سے ایرانیوں کے لیے سخت مالی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، بر آمدات پر پابندیوں کی وجہ سے، غذائی اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔‘‘
حالیہ مہینوں میں، ایران کے ساتھ یورپی یونین کی تجارت میں، ان اشیاء میں بھی جن کی تجارت کی اجازت ہے، ڈرامائی کمی آئی ہے۔ ڈبلیو لیگل کے چیف ایگزیکٹو نیجل کوشنر جو کمپنیوں کو ایران کے ساتھ تجارت کے معاملات میں مشورے دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی بنکوں کو امریکہ کی ناراضگی کا ڈر ہے۔
’’خطرہ یہ ہے کہ امریکی ان سے خاموشی سے بات کریں گے اور ان سے کہیں کہ وہ ایران کے ساتھ تجارت نہ کریں۔ لہٰذا وہ تجارت نہیں کریں گے اگرچہ انہیں اس کی اجازت ہے۔ میں نے کل سوئٹزر لینڈ کے ایک بنک سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ہم دواؤں اور انسانی ضرورت کی چیزوں کے لیے جو ایران جاتی ہیں، پیسہ قبول کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں ایسا کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔‘‘
کوشنر کہتے ہیں کہ ایران کو اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے ایسے ملکوں کی تلاش ہے جن پر پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔’’ممکن ہے اس میں زیادہ وقت لگے، زیادہ کام کرنا پڑے، اور مہنگی چیزیں لینی پڑیں، لیکن وہ اکثر چین جیسے ملکوں، اور شاید ترکی پر انحصار کریں گے، جنہیں پابندیوں پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف لندن کے تجزیہ کار علی فتح اللہ نجاد کہتے ہیں کہ ایران کو سب سے زیادہ پریشانی بنکوں پر پابندیوں سے ہو رہی ہے۔ ’’مالیاتی اور بینکاری کے کاروبار پر زبردست پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے معیشت کی دوسری تمام شاخیں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔‘‘
فتح اللہ نجاد کہتے ہیں کہ اگر اس مسئلے کا کوئی سفارتی حل تلاش کیا جانا ہے، تو آنے والے مذاکرات میں ان پابندیوں کے بارے میں بات چیت لازمی طور پر کی جانی چاہیئے۔
’’اپنی اقتصادی ترقی کے بارے میں، اپنی آبادی کی عافیت کے بارے میں، اپنی سول سوسائٹی کی فلاح کے بارے میں، ایرانیوں کو ملک کے اندر اور باہر بہت تشویش ہے۔ اور یہ ایسی چیز ہے جسے مذاکرات کی میز پر رکھنا بہت ضروری ہے۔‘‘
اگر ایران اور P5+1 کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں، تو تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ اس بحران کے مستقل حل کے بجائے، مختصر مدت کے ایسے اقدامات پر توجہ دی جائے گی جن سے اعتماد میں اضافہ ہو۔
اس دوران، جب صدر اوباما نے اعلان کیا کہ نئے وزیرِ دفاع کے لیے انھوں نے کس کا انتخاب کیا ہے تو واشنگٹن میں ایران کے خلاف پابندیوں پر زور شور سے بحث شروع ہو گئی۔ صدر اوباما کا انتخاب ہیں ’’وزیر دفاع کے لیے چک ہیگل‘‘۔
ہیگل سابق ریپبلیکن سینیٹر ہیں۔ ماضی میں انھوں نے ایران کے خلاف یک طرفہ پابندیوں کی مخالفت کی تھی اور اگر ایران کے ساتھ بین الاقوامی مذاکرات ناکام ہو گئے، تو ہیگل اور پینٹا گون کو امریکہ کے اس فیصلے میں شریک ہونا پڑے گا کہ ایران پر فوجی حملہ کیا جائے یا نہیں۔