ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے اگر امریکہ کثیر القومی جوہری سمجھوتے سے الگ ہوتا ہے تو اس کے ردعمل میں ایران کا جوہری ادارہ "متوقع اور غیر متوقع" اقدام کے لیے تیار ہے۔
خبر رساں ادارے 'روئٹرز' کے مطابق روحانی نے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی تقریر میں ٹرمپ کی طرف سے آئندہ ماہ اس سمجھوتے سے الگ ہونے کے ممکنہ فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ "ہماری جوہری توانائی کی تنظیم پوری طر ح تیارہے۔۔ان تمام اقدامات کے لیے جن کی انہیں توقع ہے یا انہیں توقع نہیں ہے۔"
تاہم انہوں نے ان اقدامات کی تفصیل بیان نہیں کی۔
یہ جوہری سمجھوتہ ایران، امریکہ اور پانچ دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان 2015ء میں طے پایا تھا جس کی وجہ سے تہران پر اقتصادی تعزیرات اٹھائے جانے کے عوض ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی پابند ی قبول کی۔
ٹرمپ اس سمجھوتے کو انتہائی خراب قرار دے چکے ہیں۔ رواں سال جنوری میں انہوں نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی پر زور دیا تھا کہ وہ اس سمجھوتے سے متعلق ان امور کو صحیح کرنے پر اتفاق کریں جو امریکہ کے نزدیک اس کی خامیاں ہیں، بصورت دیگر وہ امریکہ کی طرف سے تعزیرات سے استثنیٰ میں توسیع نہیں کریں گے۔
تحفیف اسلحہ سے متعلق امریکہ کے سفیر رابرٹ وڈ نے جمعرات کو کہا کہ واشنگٹن 12 مئی کی ڈیڈ لائن سے پہلے یورپی اتحادیوں کے ساتھ "شدومد" سے بات چیت کر رہا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ نے نیا استثنیٰ جاری نہ کیا تو ایران کے خلاف تعزیرات دوبارہ نافذ ہو جائیں گی۔
ایران نے کہا کہ وہ اس وقت تک اس سمجھوتے کی پابندی کرے گا جب تک دیگر فریق اس کا احترام کریں گے لیکں اگر امریکہ اس سے الگ ہوتا ہے تو وہ بھی اس سمجھوتے کو ختم کر دے گا۔
ایران کے سرکاری ٹی وی نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی نیویارک میں ایک گفتگو کے حوالے سے بتایا کہ "اگر امریکہ اس سمجھوتے سے الگ ہو جاتا ہے تو (اس صورت میں) ایران کے پاس کئی آپشنز ہیں۔ امریکہ کے اس سمجھوتے سے الگ ہونے پر ایران کا ردعمل ناخوشگوار ہوگا۔ "