ایران کے صدر حسن روحانی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان لڑائی جاری رہی تو یہ جاری لڑائی دونوں ملکوں کی سرحدوں سے نکل کر علاقائی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
بدھ کے روز اپنی کابینہ کے ایک اجلاس میں صدر حسن روحانی نے جنگ سے متعلق اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو کاراباخ کے متنازعہ علاقے پر دس روز سے جاری لڑائی میں اب تک سینکڑوں فوجی اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایران کی شمال مغربی سرحد، آرمینیا اور آذربائیجان، دونوں ملکوں سے ملتی ہے اور تہران کے ان دونوں پڑوسوں سے اچھے سفارتی تعلقات ہیں۔
ایران سے جاری ہونے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ چند مارٹر گولے ایران کے سرحدی گاؤں اور قصبوں میں آ کر گرے ہیں، جن سے چند عمارتوں کو نقصان پہنچا اور ایک چھ سالہ بچہ ہلاک ہو گیا۔
صدر روحانی نے خبرادر کیا ہے کہ وہ کبھی بھی یہ برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی ملک کسی بھی بہانے سے ایرانی سرحدوں پر دہشت گرد بھیجے۔
ترکی پر الزام عائد ہو رہا ہے کہ وہ شامی جنگجوؤں کو آرمینیا سے لڑنے کے لئے آذربائیجان بھیج رہا ہے جو کہ اس کا پرانا اتحادی ہے۔ ترکی اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
ناگورنو کاراباخ کا علاقہ تو آذربائیجان میں ہے لیکن اس کی آبادی نسلی اعتبار سے آرمینیائی ہے اور اس نے سویت یونین کے انہدام کے وقت سن 1991 میں باکو سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ آرمینیا بھی اس علاقے پر دعویٰ رکھتا ہے۔ اس وجہ سے وہاں جنگ شروع ہو گئی تھی جس میں 30 ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے اور پھر سن 1994 میں جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا جس کے بعد اس علاقے کا کنٹرول آرمینیائی نسل کے لوگوں کو دے دیا گیا تھا۔
امریکہ، فرانس اور روس پر مشتمل، آرگنائزیشن فار سیکیورٹی اینڈ کو آپریشن اِن یورپ منسک گروپ نے ناگورنو کاراباخ میں امن کی کوششوں میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ تاہم سن 2010 میں یہ کوششیں ناکام ہو گئی تھیں۔