ایران کی اخلاقی پولیس کی تحویل میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی مبینہ ہلاکت پر ملک بھر میں ایک ہفتے سے جاری حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نےکہا ہے کہ حکومت کے ماتحت اداروں کو اس احتجاج سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد پچھلے ہفتے کے دوران مظاہرے 133 شہروں تک پھیل چکے ہیں، جن میں سیکیورٹی فورسز کے اقدامات کے سبب41 افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
ایران کے دارالحکومت تہران میں اخلاقی پولیس (گشتِ ارشاد) نے گزشتہ ہفتے 22 سالہ مہسا امینی کو حجاب صحیح طور پر نہ پہننے پر گرفتار کیا تھا، بعد ازاں انہیں بے ہوشی کی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں جمعے کو ان کی موت ہوئی۔مہسا امینی کی موت کی وجہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے۔
سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے آبائی شہر مشہد میں جمعے کو ان کے پتلے نظرِ آتش کر رہے ہیں جب کہ مظاہرین ان کے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
SEE ALSO: مہسا امینی کی ہلاکت پر ایران میں پرتشدد مظاہرے، ہلاکتوں کی تعداد 35 ہو گئیبعض ویڈیوز میں بھی دارالحکومت تہران سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہرین خامنہ ای کی تصویروں کو آگ لگاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ایرانی صدر امریکہ کے شہر نیو یارک سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کےبعد واپس آئے ہیں۔
ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ابراہیم رئیسی نے مظاہروں میں ہلاک ہونے والے حکومت کے حامی افراد کے اہلِ خانہ سے کہا کہ حکومت کو احتجاج کے خلاف فیصلہ کن ردِ عمل کا اظہار کرنا ہوگا۔
سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی صدر نے احتجاج، امن عامہ اور سیکیورٹی کو نقصان پہنچانے کے عمل میں فرق کرنے پر زور دیا اور حالیہ واقعات کو ایک فساد قرار دیا۔
ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق تہران نے برطانیہ اور ناروے پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے ایران میں بدامنی کے سلسلے میں مداخلت کی ہے اورشر انگیز خبریں پھیلائی ہیں ۔
ایران کی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کو برطانیہ اور ناروے کے سفیروں کو طلب کرکے حکومت کے احتجاج سے آگاہ کیا۔
تہران نے سفیروں کو طلب کرکے برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں قائم فارسی زبان کے میڈیا ادارے کے ’معاندانہ کردار‘ کا احتجاج کے حوالے سے خبروں کا حوالہ دیا ہے جب کہ ناروے کے سفارت کار سے ملک کے پارلیمانی اسپیکر کے مبینہ مداخلت پسندانہ مؤقف کے بارے میں شکایت کی گئی ہے، جنہوں نے سوشل میڈیا پرمظاہرین کی حمایت کی تھی۔
حالیہ مظاہرے 2019 میں ہونے والے احتجاج کے بعد سب سے بڑے مظاہرے ہیں، اس وقت ایرانی عوام پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر سراپا احتجاج تھے، جن پر کیے جانے والے کریک ڈاؤن میں کم از کم 1500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حالیہ مظاہروں کے گڑھ کہلائے جانے صوبے گیلان کے پولیس سربراہ جنرل عزیزاللہ ملکی نے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ ان کے صوبے میں سیکیورٹی فورسز انتہائی دباؤ میں ہیں۔گیلان میں احتجاج کرنے والے 700 سے زائد مظاہرین کو مبینہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ایران کے شمال مغرب میں واقع کرد قصبے ازناوہ کے بڑے حصے پر مظاہرین نے مبینہ طور پر اس وقت کنٹرول حاصل کیا جب سیکیورٹی فورسز مظاہرین کی بڑی تعداد کے سامنے پسپا ہو گئیں۔
سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں تہران کے ضلع ستار خان میں مظاہرین اور حکومتی سیکیورٹی فورسز اور حکومت حمائتی باسیج ملیشیا گروپ کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایرانی تجزیہ کار علی نور زادے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خواتین اپنے شوہروں، بیٹوں اور بھائیوں کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں۔
ان کے مطابق طلبہ بھی بڑی تعداد میں مظاہروں میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ حکومت نے 2018 میں طلبہ کے مظاہروں سے سختی سے نمٹا تھا۔
نور زادے کا کہنا تھا کہ 2009، 2018 اور گزشتہ برس ہونے والے مظاہروں کے بر عکس مظاہرین کی طرف سے کوئی ایک مطالبہ نہیں رکھا گیا۔ سوائے خمینی اور اس حکومت کے خاتمے کے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بار کوئی بھی معاشی صورتِ حال کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہا۔ ان کے پاس کوئی بھی ایک نعرہ نہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ اس حکومت کو گھر بھیجا جائے۔
نور زادے کے بقول مظاہرین نے کہا کہ خامنہ ای کے بیٹے مجتبی جو کہ اپنے والد کے جانشین ہو سکتے ہیں، وہ مر جائیں گے لیکن لیڈر نہیں بن سکیں گے۔
نور زادے کا مزید کہنا تھا کہ مظاہرین کو خامنہ ای کی خراب صحت سے متعلق حالیہ اطلاعات کے بعد لوگوں کے غصے میں اضافہ کر دیا ہے جو نہیں چاہتے کہ خامنہ ای کا بیٹا مجتبی ان کا جانشین ہو۔
دوسری طرف حکومت مخالف ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ امینی کی ہلاکت کے بعد گزشتہ ہفتے شروع ہونے والے مظاہروں سے ہزاروں مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں سے اکثریت کا تعلق کرد علاقوں سے ہے۔
ایرانی صحافی آئدہ گجر نے ہفتے کوسوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کی ہے۔
اس ویڈیو میں تہران کے ایوین جیل کے باہر کچھ خاندان اس آس میں آئے ہیں کہ ان کے پیارے یہاں قید ہیں۔