|
ایران کے شہر شیراز میں رہنے والی 61 سالہ مترا اپنے بیٹے کی شادی طے کر چکی ہیں۔ لیکن ایک سوال بار بار انہیں پریشان کرتا ہے کہ ان کا فیصلہ مستقبل میں درست ثابت ہوگا یا نہیں؟
مستقبل کے ان اندیشوں سے جان چھڑانے کے لیے وہ شیراز میں ایک مقبرے پر جا پہنچی ہیں۔ یہ مقبرہ ہے چودھویں صدی کے ایک معروف فارسی شاعر حافظ شیرازی کا ہے جو آج بھی ایران اور فارسی بولنے اور سمجھنے والوں میں مقبول ترین شعر گو سمجھے جاتے ہیں۔
عام طور پر رشتے، نوکری، کاروبار یا زندگی کے کسی اہم فیصلے سے پہلے رہنمائی لینا مقصود ہو تو کوئی استخارہ کرتا ہے یا نجومیوں، جوتشیوں سے حساب کتاب کراتا ہے۔ یا پھر کوئی مذہبی یا روحانی پیشواؤں سے رہنمائی لیتا ہے۔ لیکن مترا ایک شاعر کے مقبرے پر کیوں جا پہنچی ہیں؟
یہ دراصل حافظ شیرازی سے اہلِ ایران کی محبت اور ان کی شاعری سے متعلق صدیوں سے چلی آتی روایات سے جنم لینے والی ایک رسم ہے جسے ’فالِ حافظ‘ کہا جاتا ہے۔
حافظ کے مقبرے پر کئی فال گیر یعنی فال نکالنے والے موجود ہوتے ہیں جو اپنے سامنے رکھے حافظ کے دیوان یا شاعری کے مجموعے کو کہیں سے بھی کھول کر کسی شعر سے پوچھے گئے سوال کا جواب اخذ کر کے بتا دیتے ہیں۔
مترا نے بھی ایک فال گیر کے سامنے اپنا اپنا مدعا بیان کیا اور جب انہوں نے جواب میں آنے والے شعر اور اس کا مفہوم بتایا تو مترا کے دل و دماغ پر چھائے اندیشوں کے بادل چھٹ گئے اور ان کا چہرہ کِھل اٹھا کیوں کہ شعر میں زندگی کے آئندہ دور کے لیے اطمینان اور سکون کا پیغام تھا۔
حافظ کے مقبرے کے باغیچے میں کھڑی مترا نے سکون کا سانس لیا اور کہا ’’آج میں نے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے آخری مشورہ لے لیا۔ ورنہ مجھے اندیشہ تھا کہ نجانے یہ فیصلہ درست ثابت ہو گا بھی نہیں؟ لیکن فال آنے کے بعد اب میری تسلی ہو گئی۔‘‘
یہاں موجود کئی فال گیر اپنے ساتھ طوطے بھی رکھتے ہیں۔ یہ طوطے رنگین لفافوں میں سے کوئی ایک اپنی چونچ سے اٹھاتے ہیں اور فال گیر ان میں بند کاغذ پر لکھے حافظ کے شعروں سے فال نکالتے ہیں۔
’یہ میرے لیے حقیقت ہے‘
ایک جانب حافظ کے مزار پر ان کے معتقد اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری جانب 44 سالہ کیمسٹری کی پروفیسر حمیدہ کسی مسئلے پر رہنمائی کے لیے یہاں آئی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’’میں ہمیشہ کسی بھی معاملے پر حافظ ہی سے رہنمائی لیتی ہوں۔ میں سائنس کے قوانین سے اس کی وضاحت تو نہیں کرسکتی لیکن یہ میرے لیے ایک حقیقت ہے۔‘‘
شاعری کو ایران میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ عشق و محبت اور تصوف کے موضوعات پر کئی لازوال شعر قالینوں میں بنے، زیورات میں جڑے اور بل بورڈز پر لکھے نظر آتے ہیں۔
ایرانی عظیم فارسی شعرا رومی، سعدی اور فردوسی کو اپنا قومی فخر سمجھتے ہیں۔ ان میں سے فردوسی نے ’شاہنامہ‘ کے عنوان سے ایران کی قدیم سلطنت سے اپنے دور تک کے بادشاہوں کے احوال کو شاعری کی صورت میں بیان کیا تھا۔
اسے دنیا میں شاعری کی بڑی کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر، 41 سالہ فرشاد کہتی ہیں کہ یہ ہماری قومی شخصیات ہیں اور انہوں نے ہمارے کلچر کی تشکیل کی ہے۔
حافظ کے شعر سے سال کا آغاز
ایران میں بیسویں صدی کے شروع میں شاعری نے سماجی سطح پر پائے جانے والی مزاحمت کو آواز فراہم کی تھی اور اسی لیے ایران کے سابق بادشاہی نظام میں اختلاف کرنے والے احمد شاملو، فروغ فرخ آباد اور سیمین بہبانی جیسے شعرا کے کلام کو بھی سینسر شپ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
لیکن کسی ایرانی شاعر کو حافظ جیسی قبولیت عامہ حاصل نہیں۔ اس کا ایک ثبوت تو یہی ہے کہ زیادہ تر گھروں میں دیوانِ حافظ کا ایک عمدہ چھپا ہوا نسخہ ضرور ہوتا ہے۔
ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ مختلف موضوعات پر حافظ کی شعری دانش کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر محبت، شراب اور مذہبی پیشواؤں کے دہرے کردار پر تبصرے کے لیے ان کے کئی اشعار لوگوں کی یادداشت کا حصہ ہیں۔
ایران میں نئے سال کے جشن ’نوروز‘ میں خاص طور پر حافظ کے اشعار پڑھے جاتے ہیں۔
خاتونِ خانہ 46 سالہ مریم یوسفی کہتی ہیں کہ ہم سال کا آغاز ہی حافظ کی شاعری سے کرتے ہیں اور اس سے فال لیتے ہیں کہ آنے والا سال ہمارے لیے کیا لے کر آ رہا ہے۔
مستقبل کا حال بتانے فال گیر یوں تو پورے ایران میں مل جائیں گے لیکن تہران کے جنوب میں 800 کلو میٹر دور واقع شہر شیراز میں حافظ کے مزار پر یہ خاص طور پر موجود ہوتے ہیں۔ مقبرے کے ساتھ ہی کھلے گلابوں کے باغیچے ان کا سب سے بڑا ٹھکانہ ہیں۔
لیکن دیوانِ حافظ سے فال نکالنے کی رسم صرف مقبرے تک محدود نہیں۔ لوگ گھروں، چائے خانوں اور دوستوں کی محفلوں میں بھی دیوان سے فال نکالتے ہیں۔
اگرچہ ایران میں اس کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے علاوہ وسطیٰ ایشیائی ممالک اور ہندوستان میں بھی دیوان سے فال نکالی جاتی تھی۔
ہندوستان میں شاہی درباروں سے صوفیوں کی خانقاہوں تک کسی بھی اہم کام سے قبل دیوانِ حافظ سے فال نکالنے کے تذکرے ملتے ہیں۔
مقبولیت کم نہیں ہوئی
حافظ کا تعلق فارس کی تاریخ کے بہت ہنگامہ خیز دور سے ہے۔ اس لیے ان کی شاعری میں غم، انسانی کرب اور مذہبی لوگوں کے دہرے کردار اور رویوں کی شکایت نظر آتی ہے۔
حافظ کی شاعری کے موضوعات میں عشق کی وارفتگی ہے تو وہیں واعظوں، ناصحوں پر گہرا طنز بھی کیا گیا ہے۔
اگرچہ 1979 میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد بعض بڑے مذہبی علما نے حافظ کی شاعری پر ناگواری اور ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا لیکن ایران میں قومی سطح پر حافظ کے مقام و مرتبے یا مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
حالیہ برسوں میں حافظ کے دیوان سے فال نکالنے کی رسم پر بھی کئی لوگ تنقید کرنے لگے ہیں۔
لیکن اس مخالفت کے باجود حافظ کے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد ان کا کلام پڑھنے کی مجلسیں منعقد کرتی ہے اور فال نکالنے کی روایت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
شیراز سے تعلق رکھنے والے شاعر اور مصنف احمد اکبرپور کا کہنا ہے کہ کئی لوگ دیوانِ حافظ کی قسم بھی اٹھاتے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو فال نکالنے کی رسم ادا تو کرتے ہیں لیکن اس پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ محض اسے ایک ثقافتی روایت سمجھتے ہیں۔
مصطفیٰ اسکندری کی عمر 67 برس ہے اور وہ گزشتہ 30 برسوں سے دیوانِ حافظ سے فال نکال رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ حافظ کی پوری شاعری یاد کر چکے ہیں۔
وہ فال کے بارے میں بتاتے ہیں کہ حافظ کی شاعری میں ایک خاص طرح کا ابہام ہے اور اکثر شعر پہلو دار ہیں۔ ایک ایک شعر سے کئی کئی معنی و مفہوم اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ہاتف غیب‘ ہر کسی سے الگ الگ کلام کرتے ہیں۔ ایک ہزار لوگ بھی ایک ہی ارادے اور نیت سے دیوان کھولیں گے تو انہیں ملنے والا جواب مختلف ہو گا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔