ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے حسین امیر عبداللہیان کو نیا وزیر خارجہ نامزد کیا ہے۔ ایران کے یہ سابق سفارت کار ایک سخت گیر اور مغرب مخالف شخصیت ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ بحرین میں ایران کے سفیر رہ چکے ہیں۔ 2011ء سے 2016ء تک عرب اور افریقی امور سے متعلق ایران کے معاون وزیر خارجہ کے طور پر بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ سال 1997 سے2001ء تک وہ بغداد کے ایرانی سفارت خانے میں نائب چیف آف مشن بھی رہ چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، بتایا جاتا ہے کہ نئے نامزد وزیر خارجہ کے ایرانی پاسداران انقلاب کے ساتھ قریبی روابط ہیں، جبکہ لبنان کی طاقتورتحریک حزب اللہ اور مشرق وسطیٰ میں لڑی جانے والی پراکسی یعنی درپردہ لڑائیوں کے معاملات سے مبینہ طور پر ان کا قریبی تعلق ہے۔
ایک سابق ایرانی اہل کار نے بتایا ہے کہ وزارت خارجہ کے لئے امیر عبداللہیان کے انتخاب سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ نئے ایرانی وزیر اعظم ابراہیم رئیسی خارجہ پالیسی میں علاقائی امور کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔
انہیں یہ عہدہ ایسے وقت پر سونپا گیا ہے جب 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
صدر رئیسی نے ایران کے وزیر پیٹرولیم کے عہدے کے لئے جواد اوجی کو نامزد کیا ہے، جو سابق وزیر تیل اور سرکاری تحویل میں کام کرنے والی گیس کمپنی کے انتظامی سربراہ رہ چکے ہیں۔
رئیسی نے اپنی کابینہ میں کسی ایک خاتوں کو بھی نامزد نہیں کیا۔
ایران کے صدر کے نامزد کردہ وزرا اور کابینہ کے تجویز کردہ دیگر ارکان کو پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہو گا۔
نئے منتخب صدر کے طور پر خود رئیسی کو سابق جج کی حیثیت سے انسانی حقوق سے متعلق مبینہ خلاف ورزیوں کے الزامات پر مغربی ملکوں کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے۔
رواں ماہ کی پانچ تاریخ کو ایران کے صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالنے کے بعد ابراہیم رئیسی نے سابق ایرانی صدر حسن روحانی کی جگہ لی ہے جو ایک معتدل مزاج اور حقیقت پسند لیڈرکی شہرت رکھتے تھے۔ ایران میں اس سال جون میں منعقد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ابراہیم رئیسی نے کامیابی حاصل کی جب کہ ان کےمتعدد مخالف امیدواروں کو انتخاب لڑنے سے روک دیا گیا تھا۔ان میں اعتدال پسند اور قدامت پسند امیدوار دونوں ہی شامل تھے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایران کی جانب سے جوہری مذاکرات میں شامل ایک سابق اہل کار نے بتایا ہے کہ ''امیر عبداللہیان ایک سخت گیر سفارت کار رہے ہیں۔ اگر وزارتِ خارجہ ایران کے نیوکلیئر امور کی سربراہ رہتی ہے، تو جوہری مذاکرات کے دوران تہران انتہائی سخت رویہ جاری رکھے گا''۔
ایران کے نیم سرکاری میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، ملک کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل، جو براہ راست ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی ماتحتی میں کام کرتی ہے، ویانا میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران وزارت خارجہ کی جگہ لے لے گی، جو سابق ایرانی وزیر اعظم حسن روحانی کے دور میں نسبتاً اعتدال پسند نمائندوں کی نگرانی میں کام کر رہی تھی۔
اس سال اپریل سے ایران اور عالمی طاقتیں 2015ء کے اس ایٹمی معاہدے کی بحالی سے متعلق بات چیت کر رہی ہیں، جس سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکہ نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ سابق امریکی صدر نے ایران کے خلاف پابندیاں بھی دوبارہ عائد کر دی تھیں، جن کی وجہ سے ایران کی تیل کی برآمدات بری طر ح متاثر ہوئیں اور معیشت پر برے اثرات مرتب ہوئے۔
اس سال بیس جون کو ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کا چھٹا دور منعقد ہوا تھا جس کے بعد ایران اور مغربی اہل کاروں نے بتایا تھا کہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے لیے لازم ہو گا کہ ایران اور امریکہ درپیش اہم معاملات کا تصفیہ کریں۔ سال 2019ء سے اب تک ایران یورینیم کی افزودگی کی حدود سے مبینہ طور پر تجاز کرتا آیا ہے، جس سے جوہری ہتھیار بنانا ممکن ہو سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جوہری مذاکرات کے آئندہ ادوار کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ فریق تاریخ کا تعین کریں۔
(اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے رائٹرز سے لی گئی ہیں)