بغداد کے شمال میں واقع قصبے، بلاد میں ایک خود کش حملہ آور نے کھچا کھچ بھرے ہوٹل میں دھماکہ کیا جس کے باعث 16 افراد ہلاک ہوئے
واشنگٹن —
پیر کے روز عراق میں شدت پسندی کے واقعات میں بغداد کے قریب دو بم دھماکے ہوئے، جِن کے نتیجے میں کم از کم 22افراد ہلاک ہوئے۔
دارالحکومت کے شمال میں واقع قصبے، بلاد میں ایک خودکش حملہ آور نے کھچا کھچ بھرے ہوٹل میں دھماکہ کیا جس کے باعث 16افراد ہلاک ہوئے۔
بغداد کے شمال میں ہی مقددیہ کے ایک کھیل کے میدان کے قریب دوسرا بم دھماکہ ہوا جِس میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مرنے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔
پیر کے روز ہونے والے اِن حملوں کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
تاہم، ’عراق اسلامی ریاست‘ اور ’لیونت‘ نامی القاعدہ سے منسلک گروپ کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے عید کے دوران ہونے والے دھماکوں کے سلسلے کے پیچھے اُسی کا ہاتھ ہے، جِن میں تقریباً 70افراد ہلاک ہوئے۔
گروپ کا کہنا ہے کہ یہ حملے مسلمان انتہا پسندوں کی گرفتاری کا بدلہ لینے کے لیے کیے گئے ہیں، اور گروپ نے تشدد کے مزید واقعات کی دھمکی دی ہے۔
عراق کی سنی اقلیت اور شیعہ قیادت والی حکومت کے درمیان تناؤ کے نتیجے میں، اس سال دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس میں اب تک 3000سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سنیوں کا کہنا ہے کہ حکومت اُنھیں بے وقعت بنانے کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اور اُن کی ضروریات اور مطالبوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
دارالحکومت کے شمال میں واقع قصبے، بلاد میں ایک خودکش حملہ آور نے کھچا کھچ بھرے ہوٹل میں دھماکہ کیا جس کے باعث 16افراد ہلاک ہوئے۔
بغداد کے شمال میں ہی مقددیہ کے ایک کھیل کے میدان کے قریب دوسرا بم دھماکہ ہوا جِس میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مرنے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔
پیر کے روز ہونے والے اِن حملوں کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
تاہم، ’عراق اسلامی ریاست‘ اور ’لیونت‘ نامی القاعدہ سے منسلک گروپ کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے عید کے دوران ہونے والے دھماکوں کے سلسلے کے پیچھے اُسی کا ہاتھ ہے، جِن میں تقریباً 70افراد ہلاک ہوئے۔
گروپ کا کہنا ہے کہ یہ حملے مسلمان انتہا پسندوں کی گرفتاری کا بدلہ لینے کے لیے کیے گئے ہیں، اور گروپ نے تشدد کے مزید واقعات کی دھمکی دی ہے۔
عراق کی سنی اقلیت اور شیعہ قیادت والی حکومت کے درمیان تناؤ کے نتیجے میں، اس سال دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس میں اب تک 3000سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سنیوں کا کہنا ہے کہ حکومت اُنھیں بے وقعت بنانے کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اور اُن کی ضروریات اور مطالبوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔