اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ عراق کے لڑائی والے علاقوں سے عیسائی برادری کے ہزاروں افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام کی طرف منتقل ہو رہے ہیں جب کہ چین نے لڑائی والے علاقے میں پھنسے اپنے کارکنوں کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا ہے۔
سنی شدت پسندوں نے بدھ کو موصل کے قریب واقع بخدیدا کے تاریخی علاقے آشوریہ پر مارٹر گولوں سے حملہ کیا جس کے بعد یہاں آباد عیسائی برادری شدید تشویش میں مبتلا ہو گئی تھی۔
پچاس ہزار آبادی والا یہ علاقہ عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جس پر رواں ماہ کے اوائل میں دولت اسلامیہ فی عراق ولشام کے جنگجوؤں نے قبضہ کر لیا تھا۔
یو این ایچ سی آر کی ترجمان ملیسا فلیمنگ کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے عیسائی برادری کے لگ بھگ دس ہزار افراد عراق کے گرد علاقوں کی طرف سے منتقل ہوئے ہیں۔
"یہ لوگ بسوں، کاروں اور ٹیکسیوں میں شمالی کردستان کے علاقے میں بدھ ہی رات ہی سے منتقل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے اور اکثر اربیل میں اپنے رشتے داروں، دوستوں، اسکولوں اور کمیونٹی سنٹر میں مقیم ہیں۔‘‘
ترجمان کے بقول ان افراد کا کہنا تھا کہ وہ "جلدی میں اپنا گھر بار چھوڑ کر نکلے اور اپنی بہت سے چیزیں پیچھے گھروں ہی میں چھوڑ آئے" جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کس قدر خوفزدہ تھے۔
فلیمنگ کا کہنا تھا کہ یو این ایچ سی آر اور مقامی رضاکاروں نے ان لوگوں میں بنیادی ضروریات کی چیزیں تقسیم کی ہیں جن میں لحاف، گدے اور پلاسٹک شیٹس بھی شامل ہیں۔
دریں اثناء چین کے سرکاری میڈیا نے خبر دی ہے کہ عراق کے لڑائی والے علاقے میں پھنسے 1200 سے زائد چینی کارکنوں کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ژنہوا کے مطابق یہ افراد چائنا مشینری انجینیئرنگ کارپوریشن کے ملازم تھے اور یہ سامرا کے علاقے میں ایک پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے متعین تھے۔
تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ان افراد کو کس نے وہاں سے نکالا۔ خبر کے مطابق 45 کارکنوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے منتقل کیا گیا جب کہ دیگر بسوں کے ذریعے ایک دو روز میں بغداد پہنچ جائیں گے۔
عراق میں دس ہزار سے زائد چینی باشندے موجود ہیں جن میں اکثریت چینی کمپنیوں میں ہی کام کرتی ہے۔