یہ انتخابات ایک ایسے وقت ہو ئے ہیں جب عراق 2008ء سے تشدد کے اعتبار سے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
امریکی فوجیوں کے انخلا کے تیرہ سال بعد عراق میں عوام پہلی مرتبہ بدھ کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے اپنی قیادت کا چناؤ کرنے کے لیے ووٹ ڈالے ۔
328 نشستوں پر مشتمل پارلیمان کے لیے سخت سکیورٹی میں پولنگ شروع ہوئی۔
نوری المالکی تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے اُمیدوار ہیں لیکن یہ انتخابات ایک ایسے وقت ہوئے جب عراق 2008ء سے تشدد کے اعتبار سے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
اقوام متحدہ اور مقامی حکام کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کم از کم 7 ہزار 8 سو عام شہری مارے گئے جبکہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں یہ تعداد 2 ہزار 6 سو رہی۔
پولنگ کا عمل صبح سات بجے شروع ہوا۔ عراق میں اہل ووٹروں کی تعداد دو کروڑ 20 لاکھ ہے جب کہ ملک بھر میں 50 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔
بغداد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں سکیورٹی انتہائی سخت ہے جب کہ بغداد میں ہوائی اڈہ بھی عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق بغداد کے بعض علاقوں کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔
پیر اور منگل کو ہوئے بم حملوں میں کم از کم 65 افراد ہلاک ہوئے جس کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ تاہم سنی عسکریت پسند سیاسی عمل کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے ایسے حملے کرتے آئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ووٹر فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر امیدواروں کو منتخب کریں گے اور کوئی ایک پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔
دریں اثناء ایک بین الاقوامی امدادی گروپ "ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز" کے مطابق عراق کے صوبہ انبار میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی بنا پر لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
گروپ کے مطابق صرف گزشتہ ماہ 18 ہزار سے زائد افراد جن میں اکثریت عورتوں ار بچوں کی تھی، نے تکریت میں پناہ لی۔
صوبہ انبار گزشتہ سال سے تشدد کی بدترین لپیٹ میں رہا ہے اور خصوصاً اس کے علاقوں فلوجہ اور رمادی میں ایسے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔
328 نشستوں پر مشتمل پارلیمان کے لیے سخت سکیورٹی میں پولنگ شروع ہوئی۔
نوری المالکی تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے اُمیدوار ہیں لیکن یہ انتخابات ایک ایسے وقت ہوئے جب عراق 2008ء سے تشدد کے اعتبار سے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
اقوام متحدہ اور مقامی حکام کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کم از کم 7 ہزار 8 سو عام شہری مارے گئے جبکہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں یہ تعداد 2 ہزار 6 سو رہی۔
پولنگ کا عمل صبح سات بجے شروع ہوا۔ عراق میں اہل ووٹروں کی تعداد دو کروڑ 20 لاکھ ہے جب کہ ملک بھر میں 50 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔
بغداد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں سکیورٹی انتہائی سخت ہے جب کہ بغداد میں ہوائی اڈہ بھی عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق بغداد کے بعض علاقوں کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔
پیر اور منگل کو ہوئے بم حملوں میں کم از کم 65 افراد ہلاک ہوئے جس کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ تاہم سنی عسکریت پسند سیاسی عمل کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے ایسے حملے کرتے آئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ووٹر فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر امیدواروں کو منتخب کریں گے اور کوئی ایک پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔
دریں اثناء ایک بین الاقوامی امدادی گروپ "ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز" کے مطابق عراق کے صوبہ انبار میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی بنا پر لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
گروپ کے مطابق صرف گزشتہ ماہ 18 ہزار سے زائد افراد جن میں اکثریت عورتوں ار بچوں کی تھی، نے تکریت میں پناہ لی۔
صوبہ انبار گزشتہ سال سے تشدد کی بدترین لپیٹ میں رہا ہے اور خصوصاً اس کے علاقوں فلوجہ اور رمادی میں ایسے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔