عراق نے شدت پسند تنظیم داعش کے زیر قبضہ علاقے واپس حاصل کرنے کے لیے فوجی کارروائی شروع کر دی ہے۔ مقامی کُرد اور شیعہ ملیشیا بھی داعش کے خلاف لڑائی میں حکومتی فورسز کا ساتھ دے رہی ہیں۔ عراقی فوج کو امریکی قیادت میں قائم فضائی اتحاد کی حمایت بھی حاصل ہے۔
شمال میں واقع ایک فوجی اڈے میں جنرل نجم الجبوری نے اپنے سپاہیوں کو زمینی حملے سے قبل تیار رہنے کا کہا ہے۔ اس حملے میں پولیس اور مقامی قبائلی ملیشیا بھی حصہ لے رہی ہیں۔
اتحادی افواج کے فضائی حملوں نے زمینی حملے سے قبل داعش کے دفاع کو کمزور کر دیا ہے۔ عراقی سپیشل فورسز اور شیعہ نیم فوجی جنگجوؤں نے بدھ کو ایک بڑی آئل ریفائنری کا قبضہ شدت پسندوں سے واپس لینے کے لیے لڑائی کی۔
گزشتہ ایک سال کے دوران بيجی ریفائنری کا قبضہ متعدد ہاتھوں میں رہا ہے۔ حکومت نے نومبر میں اسے شدت پسندوں کے قبضے سے واپس لیا تھا۔ مگر بعد میں حکومت کا کنٹرول ختم ہونے کے بعد اپریل میں پھر اسے واپس حاصل کیا گیا۔ اس ماہ کے اوائل میں شدت پسند اس کی چاردیواری کو توڑ کر اندر داخل ہو گئے تھے اور مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی انٹرویو میں عراق کے صدر فواد معصوم نے تسلیم کیا ہے کہ داعش کو شکست دینا آسان نہیں ہو گا۔
’’داعش سے نمٹنا آسان نہیں کیونکہ ان کی بہت سے سلیپر سیلز موجود ہیں، ناصرف عراق میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی۔ اس لیے ہمیں داعش کے خلاف بہت سے محاذوں پر لڑنا ہو گا۔ ایک جنگ زمین پر ہے۔ دوسری جنگ اس کے مالی وسائل کو کمزور کر رہی ہے۔ اور تیسرا محاذ دوسرے ممالک سے انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ ہے کہ کون داعش کے ساتھ ہے اور اس کے لیے کام کر رہا ہے۔‘‘
صدر معصوم نے زور دیا کہ داعش کو شکست دینے کے لیے بین الاقوامی تعاون ضروری ہے۔