عراق کے شہر تکریت میں مسلح شدت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جاری لڑائی میں کم ازکم 53افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
عراقی حکام کے مطابق منگل کے روز دارالحکومت بغداد سے 140 کلومیٹر شمال میں واقع تکریت شہر کی ایک سرکاری عمارت پر نامعلوم مسلح افراد نے دھاوا بول کر وہاں موجود افراد کو فائرنگ کا نشانہ بنایا۔
مسلح حملہ آور اب بھی عمارت پر قابض ہیں اور ان کے اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔ حملہ آور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو دستی بموں سے بھی نشانہ بنارہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ عمارت میں تکریت کی صوبائی کونسل کا دفتر واقع ہے۔ عمارت کو سیکیورٹی اہلکاروں نے حراست میں لے رکھا ہے جبکہ مسلح شدت پسندوں کی جانب سے عمارت میں موجود افراد کو یرغمال بنائے جانے کی بھی متضاد اطلاعات ہیں۔
سرکاری اہلکاروں کےمطابق شدت پسندوں کے حملے اور جوابی کاروائی میں کم از کم 65 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ حکام نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ حملے میں القاعدہ ملوث ہوسکتی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق عمارت میں داخل ہونے والے حملہ آوروں نے فوجی وردیاں پہن رکھی تھیں جبکہ ان میں سے کئی نے اپنے سینے کے ساتھ بم باندھ رکھے تھے۔
واقعہ کی تحقیقات کرنے والے اہلکاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک حملہ آور نے اپنے ساتھیوں کیلیے راستہ صاف کرنے کی غرض سے خود کو عمارت کے مرکزی دروازے پر دھماکے سے اڑایا جس کے بعد حملہ آور عمارت میں داخل ہوگئے۔
حملے کے کچھ ہی دیر بعد عمارت کے باہر ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں واقعہ کی کوریج کرنے والا ایک صحافی ہلاک اور کئی سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے صوبہ کے گورنر احمد عبداللہ کے حوالے سے کہا ہے کہ حملے کے دوران عمارت میں موجود تین اراکینِ اسمبلی بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔
واقعہ کے بعد پولیس کی جانب سے تکریت میں کرفیونافذ کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ تکریت عراق کے سابق فوجی صدر صدام حسین کا آبائی قصبہ ہے۔