امریکی صدر براک اوباما، جنھوں نے 2011ء میں نو برس لڑائی کے بعد عراق میں امریکی جنگ کا خاتمہ کیا، کہا ہے کہ عراق کو مزید امریکی مدد کی ضرورت پڑے گی، اور یہ کہ کسی بھی ’آپشن‘ کو مسترد نہیں کیا جاتا
عراقی دارالحکومت سے محض 90 کلومیٹر شمال میں مزید علاقے پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد، اسلامی باغیوں نے بغداد کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے۔
حالیہ دِنوں کے دوران تیز تر وار کرنے کے بعد، جنگجو، جن کا تعلق سنیوں کی ’دولت الاسلامیہ عراق والشام‘ اور بحیرہ روم کے شدت پسند دھڑوں نے ملک کے شمالی حصے میں زیادہ تر علاقہ فتح کر لیا ہے۔ اپنے تازہ ترین حملے میں، شدت پسندوں نے دؤالیہ کے قصبے پر قبضہ جما لیا۔
باغیوں کے ترجمان نے، جو ایک اسلامی حکومت تشکیل دینے کے خواہاں ہیں، اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ بغداد فتح کرنے کے بعد کربلہ پر قبضہ کریں گے، جو بغداد کے جنوب مغرب میں واقع ہے، جہاں شیعہ مسلک کی متبرک ترین زیارات ہیں۔
دریں اثنا، پیشمیگرہ جنگجوؤں نے، جن کا تعلق عراق کے خودمختار شمالی کرد علاقے کی سلامتی افواج سے ہے، کرکوک کے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جو تیل کے ذخائر سے مالا مال خطہ ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے، جنھوں نے 2011ء میں نو برس کے بعدعراق میں امریکی جنگ کا خاتمہ کیا، کہا ہے کہ عراق کو مزید امریکی مدد کی ضرورت پڑے گی اور کسی بھی ’آپشن‘ کو مسترد نہیں کیا جاتا۔
صدر کے بقول، اور یوں، ہمارا مفاد وابستہ ہے کہ ہم اِس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ جہادی عراق یا شام میں مستقل مضبوط ٹھکانہ حاصل نہ کر پائیں۔
اِس سے قبل موصول ہونے والی خبروں کے مطابق، عراق کے متعدد شہروں پر قبضہ کرنے والے شدت پسندوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ دارالحکومت بغداد کی طرف سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔ دولت الاسلامیہ فی عراق والشام (آئی ایس آئی ایل) کے ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ شدت پسند کربلا شہر کا کنٹرول بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر کرد فورسز کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے متنازع شہر کرکوک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ شہر اس علاقے میں واقع ہے جسے کرد حکومت کی مرضی کے خلاف اپنے لیے خود مختار ریاست میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
کرد فورسز کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پورا کرکوک پشمیگرا (کرد جنجگو) کے ہاتھ میں ہے، کرکوک میں اب کوئی عراقی فوجی موجود نہیں۔‘
دریں اثناء عراق کے متعدد شہروں پر شدت پسندوں کے قبضے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس جمعرات کو ہو رہا ہے۔
اجلاس سے پہلے کونسل کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں عراقی شہر موصل پر قبضہ کرنے والے شدت پسند تنظیم دولت الاسلامیہ فی عراق و الشام (آئی ایس آئی ایل) کے جنگجوؤں کی مذمت کی گئی۔
سلامتی کونسل کے ارکان کا کہنا تھا کہ "دہشت اور تشدد کا کوئی اقدام" عراق کی جمہوریت اور امن کی طرف سفر کو واپس نہیں موڑ سکتا۔
امریکہ اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف عراق کی کس طرح سے مدد کی جائے۔ یہ شدت پسند اب موصل، تکریت اور فلوجہ پر قابض ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی حکام نے بتایا کہ صورتحال سے متعلق سوچ بچار میں عراق میں ڈرون بھیجنے کا نقطہ بھی زیر غور ہے۔
وائٹ ہاؤس کے نائب پریس سیکرٹری جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ امریکہ القاعدہ کے دھڑے
آئی ایس آئی ایل سے مقابلہ کرنے کے لیے عراق کی "ہر طرح کی مناسب معاونت" جاری رکھے گا۔ تاہم انھوں نے اس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
عراق کے وزیراعظم نوری المالکی اور نینوا کے صوبائی گورنر ایثل النجیفی نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے شدت پسندوں سے مقابلہ کریں۔
المالکی نے عراق کے فوجی حکام پر موصل میں اپنی پوزیشنز چھوڑ کر فرار ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں دعویٰ کیا کہ یہ سب ایک منصوبہ میں شامل تھے۔
عراق میں امن و امان کی صورتحال کئی سالوں سے خراب ہی چلی آرہی تھی لیکن اس میں گزشتہ سال سے شدت دیکھنے میں آئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال اب تک ساڑھے چار ہزار لوگ تشدد کی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں جن میں نو سو اموات صرف گزشتہ ماہ ہوئیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں شدت پسندوں نے اپنی کارروائیوں میں اضافہ کرتے ہوئے عراق کے شہروں پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا۔ بدھ کو موصل میں انھوں نے موصل میں ترکی کے قونصل خانے کے عملے سمیت کم ازکم 48 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی تنظیم 'انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن' کے مطابق شدت پسندوں کے موصل پر قبضے کے بعد وہاں سے کم ازکم پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔
حالیہ دِنوں کے دوران تیز تر وار کرنے کے بعد، جنگجو، جن کا تعلق سنیوں کی ’دولت الاسلامیہ عراق والشام‘ اور بحیرہ روم کے شدت پسند دھڑوں نے ملک کے شمالی حصے میں زیادہ تر علاقہ فتح کر لیا ہے۔ اپنے تازہ ترین حملے میں، شدت پسندوں نے دؤالیہ کے قصبے پر قبضہ جما لیا۔
باغیوں کے ترجمان نے، جو ایک اسلامی حکومت تشکیل دینے کے خواہاں ہیں، اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ بغداد فتح کرنے کے بعد کربلہ پر قبضہ کریں گے، جو بغداد کے جنوب مغرب میں واقع ہے، جہاں شیعہ مسلک کی متبرک ترین زیارات ہیں۔
دریں اثنا، پیشمیگرہ جنگجوؤں نے، جن کا تعلق عراق کے خودمختار شمالی کرد علاقے کی سلامتی افواج سے ہے، کرکوک کے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جو تیل کے ذخائر سے مالا مال خطہ ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے، جنھوں نے 2011ء میں نو برس کے بعدعراق میں امریکی جنگ کا خاتمہ کیا، کہا ہے کہ عراق کو مزید امریکی مدد کی ضرورت پڑے گی اور کسی بھی ’آپشن‘ کو مسترد نہیں کیا جاتا۔
صدر کے بقول، اور یوں، ہمارا مفاد وابستہ ہے کہ ہم اِس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ جہادی عراق یا شام میں مستقل مضبوط ٹھکانہ حاصل نہ کر پائیں۔
اِس سے قبل موصول ہونے والی خبروں کے مطابق، عراق کے متعدد شہروں پر قبضہ کرنے والے شدت پسندوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ دارالحکومت بغداد کی طرف سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔ دولت الاسلامیہ فی عراق والشام (آئی ایس آئی ایل) کے ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ شدت پسند کربلا شہر کا کنٹرول بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر کرد فورسز کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے متنازع شہر کرکوک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ شہر اس علاقے میں واقع ہے جسے کرد حکومت کی مرضی کے خلاف اپنے لیے خود مختار ریاست میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
کرد فورسز کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پورا کرکوک پشمیگرا (کرد جنجگو) کے ہاتھ میں ہے، کرکوک میں اب کوئی عراقی فوجی موجود نہیں۔‘
دریں اثناء عراق کے متعدد شہروں پر شدت پسندوں کے قبضے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس جمعرات کو ہو رہا ہے۔
اجلاس سے پہلے کونسل کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں عراقی شہر موصل پر قبضہ کرنے والے شدت پسند تنظیم دولت الاسلامیہ فی عراق و الشام (آئی ایس آئی ایل) کے جنگجوؤں کی مذمت کی گئی۔
سلامتی کونسل کے ارکان کا کہنا تھا کہ "دہشت اور تشدد کا کوئی اقدام" عراق کی جمہوریت اور امن کی طرف سفر کو واپس نہیں موڑ سکتا۔
امریکہ اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف عراق کی کس طرح سے مدد کی جائے۔ یہ شدت پسند اب موصل، تکریت اور فلوجہ پر قابض ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی حکام نے بتایا کہ صورتحال سے متعلق سوچ بچار میں عراق میں ڈرون بھیجنے کا نقطہ بھی زیر غور ہے۔
وائٹ ہاؤس کے نائب پریس سیکرٹری جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ امریکہ القاعدہ کے دھڑے
آئی ایس آئی ایل سے مقابلہ کرنے کے لیے عراق کی "ہر طرح کی مناسب معاونت" جاری رکھے گا۔ تاہم انھوں نے اس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
عراق کے وزیراعظم نوری المالکی اور نینوا کے صوبائی گورنر ایثل النجیفی نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے شدت پسندوں سے مقابلہ کریں۔
المالکی نے عراق کے فوجی حکام پر موصل میں اپنی پوزیشنز چھوڑ کر فرار ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں دعویٰ کیا کہ یہ سب ایک منصوبہ میں شامل تھے۔
عراق میں امن و امان کی صورتحال کئی سالوں سے خراب ہی چلی آرہی تھی لیکن اس میں گزشتہ سال سے شدت دیکھنے میں آئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال اب تک ساڑھے چار ہزار لوگ تشدد کی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں جن میں نو سو اموات صرف گزشتہ ماہ ہوئیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں شدت پسندوں نے اپنی کارروائیوں میں اضافہ کرتے ہوئے عراق کے شہروں پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا۔ بدھ کو موصل میں انھوں نے موصل میں ترکی کے قونصل خانے کے عملے سمیت کم ازکم 48 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی تنظیم 'انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن' کے مطابق شدت پسندوں کے موصل پر قبضے کے بعد وہاں سے کم ازکم پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔