عراقی فوج اور اس کی اتحادی شیعہ ملیشیا نے تکریت شہر کے شمال میں واقع ایک نواحی قصبے کا کنٹرول شدت پسند تنظیم داعش سے چھین لیا ہے۔
حکام کے مطابق العالم نامی قصبے پر قبضے کے بعد سرکاری فوج اور ملیشیا کے لیے تکریت میں داخلے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔
عراقی فوجی افسران کا کہنا ہے کہ العالم کے شمالی حصے میں اب بھی داعش کے جنگجو مختلف گھروں میں مورچہ زن ہیں۔لیکن فوجی دستوں نے قصبے کے وسطی علاقے پر اپنا کنٹرول مستحکم کرلیا ہے اور باقی ماندہ علاقوں سے شدت پسندوں کا قبضہ چھڑانے کے لیے پیش قدمی کر رہی ہے۔
عراق کے سابق صدر صدام حسین کے آبائی شہر تکریت پر داعش نے گزشتہ سال موسمِ گرما میں عراق کے شمالی علاقوں پر چڑھائی کے دوران قبضہ کرلیا تھا۔
تکریت پر شدت پسندوں کے قبضے کے کئی ماہ بعد عراقی فوج نے بالاخر گزشتہ ہفتے شہر کا قبضہ چھڑانے کے لیے ایک بڑی فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے جس میں اسے شیعہ ملیشیاؤں کی مدد بھی حاصل ہے۔
العالم میں موجود فوجی دستوں کے ترجمان کیپٹن وسیم ابراہیم نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ شدت پسندوں کے ماہر نشانہ بازوں اور بارودی سرنگوں کے باعث فوجی دستوں کی پیش قدمی متاثر ہورہی ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ العالم میں موجود فوجی دستے ہیلی کاپٹروں کا انتظار کر رہے ہیں جو فضائی کارروائی کے ذریعے زمینی فوج کی پیش قدمی کا راستہ ہموار کریں گے۔
تکریت پر عراقی فوج کے حملے کے نتائج شمالی عراق کے مرکزی شہر موصل کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے جو داعش کے زیرِ قبضہ عراقی علاقے کا سب سے بڑا شہر ہے۔
عراقی حکومت کو امید ہے کہ تکریت پر عراقی فوج کی چڑھائی کے نتیجے میں شدت پسندوں کا زور توڑنے میں مدد ملے گی جس کا فائدہ اٹھا کر عراقی فوج داعش کے زیرِ قبضہ دیگر علاقوں کی جانب بھی پیش قدمی کرسکے گی۔
عراقی فوج کے مقابلے اور شہر کے دفاع کے لیے داعش نے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں سے جنگجووں کی کمک تکریت روانہ کی ہے جس کے باعث شدت پسندوں اور عراقی فوج کے درمیان تکریت میں سخت لڑائی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔