خصوصی عراقی افواج نے اتوار کے روز موصل یونیورسٹی کے کیمپس کی تلاشی لی، تاکہ داعش کے بقیہ شدت پسندوں کا صفایا کیا جاسکے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ اس سے قبل، فوج نے علاقے کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
ایک فوجی بیان میں کہا گیا ہے کہ دجلہ دریا کے مشرقی کنارے پر واقع دوسرے علاقے پر بھی کنٹرول سنبھال لیا ہے؛ جس کے باعث عراقی افواج نے اب تک داعش کے کنٹرول والے مضبوط اہم ٹھکانے کا زیادہ تر رقبہ واگزار کرا لیا ہے۔
انسداد دہشت گردی سے وابستہ فوج کے دستے نے جہادی عناصر کو حکمت عملی کی حامل یونیورسٹی کی عمارت کے اندر دھکیل دیا تھا، جنھوں نے ہفتے کو کالجوں سمیت مختلف عمارتوں پر قبضہ کر لیا تھا؛ جنھیں پسپا کرکے دریا کے مشرق میں موصل کے تمام علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کے ترجمان، صباح الشمان نے اتوار کے روز ٹیلی فون پر رائٹرز خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ''افواج نے یونیورسٹی کو مکمل طور پر خالی کرالیا ہے، تاکہ یہ بات یقینی بنائی جاسکے کہ چھپے ہوئے شدت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا ہے''۔
تاہم، ترجمان نے کہا کہ فریبی چال کے طور پر، شدت پسندوں نے عمارت کے قریب رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، اس لیے محتاط رہنا ہوگا۔
ترجمان نے کہا کہ یونیورسٹی کے بعد، انسداد دہشت گردی پر مامور خصوصی افواج آگے کے علاقے کی جانب جارہی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ''ہم یہاں رکیں گے نہیں''۔
فوجی عہدے داروں نے میڈیا کو بتایا کہ اس سے پہلے کی لڑائیوں کے مقابلے میں انہیں کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،
اس سے قبل موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق، عراقی فورسز اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کو پیچھے دھکیلتی ہوئی موصل کی یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہوگئی ہیں۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ یونیورسٹی کے احاطے میں کوئی شہری موجود نہیں ہے۔
انسداد دہشت گردی کی فورس کے عہدے دار لیفٹیننٹ جنرل عبدالواہاب السعدی نے کہا ہے کہ ان کی فورسز نے ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ ، دندان سازی اور آثار قدیمہ سے متعلق شعبوں کو عسکریت پسندوں سے پاک کر دیا ہے۔
عراقی فورسز نے یہ بھی کہا ہے کہ انہوں نے موصل کے پانچ پلوں میں سے تین پر قبضہ کر لیا ہے۔
فوجی عہدے داروں نے میڈیا کو بتایا کہ اس سے پہلے کی لڑائیوں کے مقابلے میں انہیں کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
عہدے داروں کا کہنا تھا کہ حالیہ کارروئیوں کے دوران انہیں چار کار بم دھماکوں کا ہدف بنایا گیا جب کہ اس سے پہلے اسلامک اسٹیٹ روزانہ 20 بارود سے بھری ہوئی گاڑیوں کے ساتھ خود کش حملہ آور بھیج رہا تھا۔
لیفٹیننٹ العابدین نے بتایا کہ اب داعش کے جنگجو پہلے کی طرح مسلح بھی نہیں ہیں اور وہ عام شہریوں کی کاریں استعمال کر رہے ہیں۔