کرد پیش مرگہ موصل کے قریب ’بعشیقہ کے قصبے میں داخل‘

عراق کے کرد پیش مرگہ فورسز نے اتوار کو عراق کے سب سے بڑے شہر موصل کے باہر داعش کے انتہا پسندوں کے خلاف ایک بڑی پیش رفت کی ہے، پیش مرگہ فورسز کو ترکی کے توپ خانے کی مدد حاصل ہے۔

شہر کے باہر پیش مرگہ کے کمانڈروں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کے جنگجو بعشیقہ شہر میں داخل ہو گئے ہیں جو داعش کے زیر کنٹرول موصل کے 10 کلو میٹر شمال میں واقع ہے۔

تاہم صحافیوں کو شہر کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور پیر کو الصبح تک شہر کی صورت حال کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں دی گئی ہے۔

عراقی اتحادی فورسز کی پیش قدمی ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ کے وزیر دفاع نے قریب ہی واقع اربیل کے شہر میں کرد راہنما مسعود بارزانی اور اہم کمانڈروں سے ملاقات کی۔

تاہم بعد ازاں کارٹر کے حوالے سے بتایا گیا کہ "وہ (پیش مرگہ) اچھے طریقے سے لڑ رہے ہیں، وہ جانفاشانی سے لڑ رہے ہیں اس لیے ان کا جانی نقصان ہو رہا ہے۔"

دوسری طرف ہفتے کو بغداد میں عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کے ساتھ ہونے والی ایک الگ ملاقات میں کارٹر نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن عراق کی قیادت میں اتحاد کو اضافی حمایت فراہم کرنے پر تیار ہے اگر عراق اور امریکی کمانڈر اس کی درخواست کرتے ہیں۔

کارٹر نے انقرہ اور بغداد کی حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے جمعہ کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی۔

دونوں حکومت کے درمیان بعشيقہ کے قصبے کے قریب تعینات ایک ہزار سے زائد ترک دستوں کے معاملے پر تنازع چلا آ رہا ہے۔ ان دستوں کو گزشتہ سال کے اواخر میں سنی اور کرد جنگجوؤں کو داعش کے خلاف پیش قدمی کے لیے تربیت دینے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔

ترکی کی فورسز نے اتوار کو داعش کے انتہا پسندوں کے خلاف پیش قدمی کرنے والے پیش مرگہ فورسز کو توپ خانے سے مدد کی۔

بغداد کی حکومت تواتر کے ساتھ اپنے ملک سے ترکی فورسز کی واپسی کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن اب تک ترکی اس مطالبہ کو نظر انداز کرتا رہا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان زبانی سخت بیانات کے تبادلے کا سلسلہ ہفتے کو اس وقت انتہائی سطح پر پہنچ گیا جب وزیر اعظم حیدر العبادی نے ترکی کی طرف سے موصل پر پیش قدمی میں شامل ہونے کے لیے حمایت کی پیش کش کو باضابطہ طور پر مسترد کر دیا۔