عراقی مظاہرین نے ہفتے کے دن جنوبی شہر نصیریہ کے تین پُلوں پر ٹائر جلائے، حالانکہ وزیر اعظم عہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔
کئی ہفتوں سے تباہ کُن پر تشدد احتجاج جاری رہنے کے بعد، جمعے کو عادل عبدالمہدی نے ملک کے پارلیمان کو اپنا استعفیٰ پیش کیا۔
عراق کی نیم سرکاری، 'ہیومن رائٹس کمشن' نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ہلاکتوں کے ذمے دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ایک بیان میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے کہا ہے کہ ''اسلحہ اور گولیاں آخری حربے کے طور پر استعمال کی جائیں''۔
جمعے کے دن عبدالمہدی کا اعلان ایسے میں سامنے آیا جب عراق کے چوٹی کے شیعہ عالم دین نے ملک کی قیادت میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ یکم اکتوبر کو حکومت مخالف احتجاج کے آغاز سے اب تک کم از کم 400 افراد ہلاک جب کہ سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
عالم دین کی کال کے جواب میں، عبدالمہدی نے کہا کہ ''میں پارلیمان کو ایک سرکاری یادداشت پیش کروں گا جو موجودہ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے سے متعلق ہو گی''۔ انھوں نے یہ بات واضح نہیں کی آیا وہ کب سبک دوش ہوں گے۔
اس اقدام کے نتیجے میں مظاہرین کی جانب سے بغداد کے تحریر چوک پر جشن منایا گیا۔ تاہم،احتجاج کرنے والوں نے کہا ہے کہ وہ تحریر چوک پر اپنا دھرنا جاری رکھیں گے۔
عراق کی پارلیمنٹ بحران پر بحث اتوار کے ہنگامی اجلاس میں کرے گی۔
اس سے قبل جمعے کے روز اپنے ہفتہ وار خطبے میں آیت اللہ السیستانی نے عراق کے پارلیمان سے مطالبہ کیا کہ وہ عبدل المہدی کی حکومت کے لیے اپنی حمایت پر نظر ثانی کرے، ایسے میں جب ہنگامہ آرائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔