امریکی افواج کے کمانڈر برائے مشرق وسطیٰ نے متنبہ کیا کہ ’’یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ داعش کے دہشت گرد پٹ چکے ہیں اور بکھر چکے ہیں، اس لیے تساہل کی گنجائش ہو سکتی ہے‘‘۔
شام میں خودساختہ اسلامی خلافت کے آخری ٹھکانے سے جمعرات کے روز سیکڑوں افراد، خواتین اور بچے فرار ہوئے؛ اور ساتھ ہی لڑاکوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دہشت گرد گروپ کو شکست کا امکان نہیں۔
امریکی حمایت یافتہ ’سیرئن ڈیموکریٹک فورس‘ کے حکام فتح کا اعلان کرنے والے ہیں، چونکہ وہ ایک ہفتہ قبل شام کے شمال مشرقی گاؤں باغوز پر قبضہ حاصل کر چکے ہیں۔ اُنھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہےکہ داعش کے حامیوں یا دہشت گرد گروپ کی جانب سے مغوی اور غلام بنائے گئے افراد کا انخلا حتمی ثابت ہوگا۔
’سیرئن ڈیموکریٹ فورس‘ کے کمانڈر، عدنان افرین نے جمعرات کی صبح کہا کہ ’’ہمیں توقع ہے کہ وہ یہ کام آج ہی مکمل کرلیں گے‘‘۔
امریکی افواج کے کمانڈر برائے مشرق وسطیٰ نے متنبہ کیا کہ ’’یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ داعش کے دہشت گرد پٹ چکے ہیں اور بکھر چکے ہیں، اس لیے تساہل کی گنجائش ہو سکتی ہے‘‘۔
امریکی سینٹرل کمان کے جنرل جوزف وٹل نے واشنگٹن میں داعش کا نام لیتے ہوئے قانون سازوں کو بتایا کہ ’’اب جو بات ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک تنظیم کی صورت میں یہ داعش کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اپنے اہل خانہ کے تحفظ اور اپنی صلاحیتوں کو بچانے کے لیے، وہ جان بوجھ کر یہ فیصلہ کر رہے ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہمارے مرد اور خواتین نے یہ دیکھا ہے کہ خلافت کے باقی ماندہ علاقوں سے داعش نکل رہی ہے، جب کہ وہ نقصان سے بچ گئے ہیں اور دراصل وہ اپنے عزائم میں پختہ ہیں‘‘۔
گذشتہ چار دنوں کے دوران باغوز سے 8000 سے زائد افراد نکل چکے ہیں، جب کہ کسی زمانے میں یہ گاؤں گھروں اور زرعی زمین کے لحاظ سے خوشحال تھا، جہاں کچھ روز سنگین لڑائی جاری رہی اور یہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، جہاں اب خیمے نظر آتے ہیں۔