پاکستان نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ ’داعش‘ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اگر ملک میں کسی بھی جگہ اس گروہ کی موجودگی کا علم ہوا تو اُس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو ہفتہ نیوز بریفنگ میں کہا کہ پاکستان کا داعش کے بارے میں موقف بڑا واضح ہے۔
’’ہم اس جماعت کو ایک دہشت گرد جماعت سمجھتے ہیں‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان بین الاقوامی برادری سے تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں پر حملے کیے گئے، جہاں حملہ آور پمفلٹ یعنی تحریری پرچے چھوڑ گئے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ حملے ’داعش‘ کی جانب سے کئے گئے تھے۔
تازہ ترین حملہ رواں ہفتے لاہور میں ہوا جہاں موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آوروں نے ایک ٹیلی ویژن اسٹیشن ’دن نیوز‘ کے دفتر پر دستی بم پھینکا۔ اس حملے میں چار افراد زخمی ہوئے۔ حملہ آور داعش کے سرنامے کے ساتھ دھمکی آمیز ایک خط بھی چھوڑ گئے۔
گزشتہ ماہ ایک اور ٹیلی وژن چینل ’دنیا نیوز‘ پر ایسے ہی حملے میں تین افراد زخمی ہوئے تھے۔ جائے واقعہ پر پھینکے گئے پمفلٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ کارروائی داعش خراسان نے کی۔
ایک اور ٹی وی چینل ڈان نیوز سے وابستہ ایک شخص گزشتہ ہفتے اس وقت زخمی ہو گیا جب نامعلوم افراد نے چینل کی ڈیجیٹل سیٹلائیٹ گاڑی کو کراچی میں حملے کا نشانہ بنایا۔
پاکستانی حکام ملک میں داعش کی موجودگی کی تردید کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ اس دہشت گرد گروہ کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔
مگر حالیہ دنوں میں ہونے والے حملوں نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ یہ شدت پسند گروہ ملک میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان کا شمار پہلے ہی صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ نیویارک میں قائم صحافیوں کی ایک نمائندہ تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 2010سے اب تک ملک میں لگ بھگ 30 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔
ان حملوں کے خلاف حالیہ دنوں میں پنجاب اور سندھ میں صحافیوں نے مظاہرے بھی کیے۔
پاکستانی میڈیا داعش کی سرگرمیوں کے بارے میں خبریں دیتا رہا ہے۔
پنجاب کی وزارت داخلہ نے گزشتہ ہفتے پولیس اور محکمہ انسداد دہشت گردی کو شہری اور فوجی تنصیبات پر داعش کی طرف سے حملوں کے خلاف خبردار کیا تھا۔
تاہم پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے ’’خطرے کے انتباہ‘‘ کو ’’معمول کی بات‘‘ قرار دیا۔