لیبیا کے حکام نے کہا ہے کہ داعش نے ملک میں گزشتہ سال اغوا کئے جانے والے دو صحافیوں کو قتل کر دیا ہے۔ ان کا تعلق تیونس سے تھا۔ یہ واقعہ پانچ صحافیوں کے اس ہفتے سامنے آنے قتل کے واقعے کے بعد پیش آیا۔
تیونس کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اس معاملے پر بات کرنے کے لیے فوراً ایک وفد لیبیا بھیجیے گی۔ تاہم انہوں نے آٹھ ہفتے قبل اغوا کیے جانے والے صحافیوں سفیان چورابی اور نادر کتاری کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
لیبیا کے مشرق میں قائم بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے ایک شدت پسند نے اعتراف کیا ہے کہ اس کی تنظیم نے ان دو صحافیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ یہ داعش کا وہی گروپ ہے جس نے برقہ ٹی وی چینل کے لیے کام کرنے والے پانچ صحافیوں کو ہلاک کیا تھا جن میں سے چار کا تعلق لیبیا سے جبکہ ایک صحافی کا تعلق مصر سے تھا۔ اطلاعات کے مطابق ان کی گلا کٹی ہوئی نعشیں لیبیا کے مشرقی علاقے سے پیر کو ملی تھیں۔
طرابلس میں قائم نام نہاد حریف حکومت نے اپنے ایک بیان میں بھی تیونس کے دو شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشتبہ افراد سے اس واقعہ کے متعلق تفتیش کی جارہی ہے۔
برقہ ٹی وی چینل کے لیے کام کرنے والے صحافی گزشتہ سال اگست میں اس وقت لاپتہ ہو گئے تھے جب وہ طبرق کے مشرقی شہر میں ملک کی نو منتخب پارلیمان کے افتتاحی اجلاس کی کارروائی رپورٹ کرنے کے بعد بن غازی کے لئے روانہ ہوئے اور انھیں داعش کے گڑھ درنا سے گزرنا پڑا۔
لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ملک میں دو متحارب حکومتوں سے منسلک جنگجوؤں کے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہونے کے باعث امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے سکیورٹی کا خلا پیدا ہوا ہے جس کا فائدہ داعش اٹھار رہی ہے۔
شام اور عراق میں ایک وسیع علاقے پر قبضہ کرنے والی شدت پسند تنظیم داعش نے لیبیا میں ایتھوپیا کے 30 اور لیبیا کے 21 مسیحیوں کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ اس کے جنگجو طرابلس میں ایک ہوٹل، سفارتخانوں اور تیل کے کنوؤں کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں۔