امریکہ کے فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ داعش کے شدت پسندوں نے نام نہاد خلافت قائم کرنے کی مہم کے دوران قبضے میں لیے گئے علاقے کا ایک تہائی علاقہ کھو دیا ہے۔
امریکی وزارت دفاع کے ایک عہدیدار نے کہا کہ یہ کامیابی اتحادی فضائیہ اور عراق کی افواج کی زمینی کارروائیوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
پینٹاگان کی طرف سے جاری کیے گئے ایک نئے نقشے میں دکھایا گیا ہے کہ عراقی فورسز نے شمال میں تکریت، جبل سنجار اور موصل ڈیم کے قریب واقع اہم علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔
پینٹاگان کے ترجمان اسٹیو وارن نے الہورا ٹیلی ویژن کو پیر کو بتایا کہ داعش نے گزشتہ سال اگست سے قبضے میں لیے گئے علاقے کا تقریباً 15,000 مربع کلو میٹر علاقہ کھو دیا ہے۔
"جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ تکریت کے قصبے کو داعش کے چنگل سے چھڑانے کے لیے ہم ایک کامیاب آپریشن کا اختتام کر رہے ہیں اور یہ آپریشن بڑی حد تک کامیاب رہا ہے۔ تکریت کے کچھ چھوٹے حصوں پر اب بھی مقابلہ جاری ہے کیونکہ داعش نے اس علاقے میں دھماکا خیز مواد اور بارودی سرنگیں بچھائی تھیں اور چند ایک جنگجو (ابھی باقی) ہیں جو صرف تکریت کے شمالی علاقے میں چھپے ہوئے ہیں"۔
دوسری طرف وارن کے بقول شام میں داعش کو پیچھے دھکیلنے کی کوششوں میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
"شام میں داعش کو دمشق میں، جنوب میں اور حلب شہر میں تھوڑی سے پیش قدمی حاصل ہوئی ہے تاہم شام میں بھی داعش کو کچھ علاقوں خاص طور پر کوبانی سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ عراق میں اتحادی فضائی کارروائیوں میں عراق کی سکیورٹی فورسز کے بہادر فوجیوں کی مدد حاصل ہے"۔
وارن نے کہا کہ اتحادی حکمت عملی یہ ہے کہ جنگجوؤں کو عراق سے ایسے ختم کیا جائے کہ وہ شام میں محفوظ پناہ گاہیں نہ بنا سکیں۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ میں اصل امتحان موصل اور انبار صوبے میں سنی اکثریت والے علاقوں میں ہو گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے تکریت کو آزاد کروانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے عراقی فورسز کے ساتھ لڑنے والے جنگجوؤں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور املاک کو تباہ کرنے کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
داعش جنگجو گروپ کا شمالی عراق کے ایک بڑے علاقے سمیت تیل کی تنصیبات پر قبضہ ہے جس سے انہیں اپنی مہم کے لیے مالی امداد حاصل ہوتی ہے۔