پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات اور سیاسی سرگرمیوں سے روکے جانے کے باوجود بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پارٹی کی خیبرپختونخوا میں مقبولیت برقرار ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کے باعث اب بھی پارٹی صوبے میں مخلوط حکومت بنا سکتی ہے۔
پشاور یونیورسٹی سے منسلک سینئر پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ اگر انتخابات میں کوئی مداخلت نہ کی گئی تو پھر پی ٹی آئی صوبے میں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حسین شہید شہروردی کا کہنا تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) جب کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) مضبوط ہے ہیں اور پی ٹی آئی کے لیے چیلنجز ہیں، تاہم خیبرپختونخوا میں اب بھی پی ٹی آئی کو اس طرح کا کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل اور تجزیہ کار فضل الہی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ رائے دہندگان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے اور ان نوجوانوں کی اکثریت اب بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔
تاہم صوابی سے سابق رُکن صوبائی اسمبلی اور قوم پرست سیاسی رہنما محمد سلیم خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، مگر خیبرپختونخوا میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے اور عدالتوں سے بھی اُنہیں ریلیف مل رہا ہے۔
فضل الہی ایڈووکیٹ کے بقول پنجاب میں بھی پاکستان تحریک انصاف شہری علاقوں میں خیبر پختونخوا کی طرح نوجوانوں کی مقبول سیاسی جماعت ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج اور سیاسی تجزیہ کار جسٹس (ر) شیر محمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عمل میں مداخلت کی شکایات عام ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا انتخابات پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔
حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں سابق وزرائے اعلٰی پرویز خٹک اور محمود خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی پارلیمینٹرینز تو قائم کر دی گئی ہے، لیکن اس جماعت کو زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی۔
اُن کے بقول دونوں سابق وزرائے اعلی نہ صرف عمران خان کی متبادل قیادت فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں بلکہ دونوں کو اپنے حلقوں اور قریبی رشتہ داروں میں بھی پذیرائی نہیں ملی۔
محمد سلیم خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے متعدد درج مقدمات کے باوجود پی ٹی آئی رہنماؤں اور سابق حکومتی عہدے داروں کو گرفتار نہیں کیا جا رہا۔
جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے خیبر پختونخوا کے وسطی اضلاع پشاور، مردان، چارسدہ، نوشہرہ اور صوابی میں عرصۂ دراز سے قوم پرست سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو نشستیں ملتی رہی ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، ٹانک اور کرک میں جمعیت علمائے اسلام (ف) مضبوط ہے جب کہ شمالی ہزاروں ڈویژن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نشستیں حاصل کرتی رہی ہے۔
لیکن بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان اضلاع سے کسی بھی جماعت کو اس مرتبہ فری ہینڈ ملنے کے امکانات کم ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی قریب کی طرح اب بھی سابقہ قبائلی اضلاع کے بیشتر حلقوں پر بھاری سرمایہ کاری کرنے والوں کی اسمبلیوں میں پہنچنے کی بازگشت سنائی دی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں کے مقابلے میں مختلف سیاسی جماعتیں اس مرتبہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو ترجیح دے رہی ہیں۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی 2013 میں صوبے میں اقتدار میں آئی تھی اور اس نے جماعتِ اسلامی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کی تھی۔ لیکن 2018 کے انتخابات میں پارٹی کو صوبے میں دو تہائی اکثریت ملی تھی۔