ورلڈ کپ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ دونوں ٹیموں نے فتح کیلئے جان لڑا دی۔ مقررہ پچاس اووروں میں سکور برابر، پھر سوپر اوور میں بھی سکور برابر۔ یوں وضع کیے گئے قوائد کے مطابق فیصلہ اس ٹیم کے حق میں کیا گیا جس نے مد مقابل ٹیم سے چند چوکے چھکے زیادہ مارے۔
یوں سوال یہ ہے کہ کیا فیصلے کیلئے یہ کسوٹی منصفانہ ہے کیونکہ میچ کے دوران مختلف موقعوں پر ٹیموں کی حکمت عملی حالات کے مطابق مختلف ہوتی ہے اور یہ مقابلہ چوکوں چھکوں کی تعداد کیلئے نہیں تھا۔ کرکٹ کے سابقہ اور موجودہ معروف کھلاڑیوں کی اکثریت بھی یہ جاننا چاہتی ہے کہ دونوں ٹیموں کو مشترکہ چیمپئن کیوں نہیں قرار دیا گیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم کو قوائد کی بھینٹ کیوں چڑھا دیا گیا۔
آسٹریلیا کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور کرکٹ کمنٹیٹر ڈین جون نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’انگلینڈ کو اپنا پہلا ورلڈ کپ جیتنے پر مبارکباد۔ نیوزی لینڈ کی بدقسمتی تھی۔ اس ٹورنمنٹ کے قوانین و ضوابط پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ آخر ورلڈ کپ فائنل تھا۔ کم سے کم ایک اور سوپر اوور دیا جا سکتا تھا۔‘‘
نیوزی لینڈ کے کھلاڑی مچل میکلینگن نے ٹویٹ کیا، ’’یہ سفاکی ہے۔ ‘‘
آسٹریلیا کے سابق فاسٹ بالر بریٹ لی کا کہنا تھا، ’’مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ونر کا فیصلہ کرنے کیلئے یہ انتہائی عجیب منطق ہے۔ اس رول کو ہر صورت بدلنا ہو گا۔‘‘
بھارت کے کرکٹر گوتم گھمبیر کہتے ہیں، ’’میں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اتنی اونچی سطح کے اس میچ کا فیصلہ اس بنیاد پر کر دیا جائے کہ کس ٹیم نے زیادہ چوکے چھکے مارے۔ یہ انتہائی فضول قانون ہے۔ اس میچ کو برابر قرار دیا جانا چاہئیے تھا۔ ‘‘
کرکٹ کے ممتاز صحافی اور مبصر عثمان سمیع الدین کہتے ہیں، ’’مجھے یہ انتہائی عجیب اور ظالمانہ ورلڈ کپ فائنل کور کرنا پڑا۔‘‘
تاہم، پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر شعیب اختر نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’اوہ میرے خدایا۔ ورلڈ کپ فائنل کا یہ میچ زبردست تھا۔ یہ ایک طرح سے مشترکہ طور پر ٹرافی جیتنے جیسا تھا۔ میچ برابر، سوپر اوور بھی برابر۔ پھر انگلینڈ زیادہ باؤنڈریز کی بنیاد پر یہ میچ جیت گیا۔‘‘