بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے حکام نے کہا ہے کہ داعش کی جانب سے صوبے کے قیام کا دعویٰ محض پروپگنڈا ہے جس کا مقصد تنظیم کی ساکھ کو بچانا ہے کیوںکہ داعش کے جنگجوؤں کو عراق اور شام میں ناکامی اور پسپائی کا سامنا ہے۔
ایک اعلیٰ پولیس افسر نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ داعش مشرق وسطیٰ میں کسی بڑی کارروائی کرنے کے قابل نہیں رہی، لہذا بھارت میں صوبہ قائم کرنے کا دعویٰ سوائے حربے کے کچھ نہیں۔
پولیس عہدیدار نے انٹیلی جنس رپورٹسں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وادئ کشمیر میں جون 2018 میں فوج کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران داعش سے وابستہ چار عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے بعد تنظیم کے صرف دو جنگجو رہ گئے تھے جن میں سے ایک کو گزشتہ دنوں شوپیان میں ایک فوجی آپریشن کے دوران ہلاک کر دیا گیا جبکہ اُس کا ساتھی پہلے ہی ایک اور عسکری تنظیم میں شامل ہو گیا تھا۔
10 مئی کو بھارتی فوج اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں نے ایک مشترکہ کارروائی کے دوران شوپیان کے ایک دور دراز گاؤں امشی پورہ-رام نگری میں ایک عسکریت پسند کو ہلاک کر دیا گیا تھا جس کی بعد میں شناخت اشفاق احمد صوفی عرف عبد اللہ بھائی کے طور پر کی گئی تھی۔
اس واقعے کے فوراً بعد سرینگر کے مرکزی علاقے میں چند نقاب پوش نوجوانوں نے ایک مظاہرے کے دوران داعش کے جھنڈے لہرائے تھے اور اس کے ساتھ ہی ان کے اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جو کئی گھنٹے تک جاری رہیں۔ پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔
اگلے روز داعش کی نیوز ایجنسی 'اعماق' نے 'ولایتِ ہند' یا بھارت میں اپنا ایک 'صوبہ' قائم کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ شوپیان میں پیش آنے والی جھڑپ کے دوران اس کے عسکریت پسندوں نے بھارتی فوج کو جانی نقصان پہنچایا۔
بھارتی عہدیداروں نے کہا ہے کہ اس مختصر جھڑپ کے دوران بھارتی فوج یا آپریشن میں حصہ لینے والے دوسرے حفاظتی دستوں کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
جمعے کو سرینگر کی جامع مسجد کے باہر پیش آنے والے پُرتشدد مظاہروں کے دوران نقاب پوش افراد کی طرف سے ایک مرتبہ پھر داعش کے جھنڈے لہرائے جانے کے حوالے سے عہدیداروں نے کہا کہ اس حرکت کا مقصد یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ مسلم اکژیتی وادی میں تنظیم کی موجودگی کے آثار واضح ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ داعش سے وابستہ عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس تنظیم کے ساتھ نظریاتی وابستگی رکھنے والے نوجوان وادی میں موجود ہیں اور مزید نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
دسمبر 2018 کے آخری ہفتے میں نقاب پوش نوجوانوں کے ایک گروہ نے سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں داخل ہو کر داعش کا پرچم لہرایا تھا اور پھر نعرے لگاتے ہوئے وہ کچھ دیر کیلئے مسجد کے محراب اور منبر پر قابض ہو گیا تھا۔
اس واقعے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا تھا کہ شورش زدہ ریاست میں داعش کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اُن کے بقول ملک اور سماج دشمن عناصر مقامی نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
جامع مسجد کے منتظمین نے الزام لگایا تھا کہ نقاب پوش نوجوانوں کے گروہ نے مسجد کے ممبر پر چڑھنے کے دوران جوتے پہن رکھے تھے اور اس طرح عبادت گاہ کی بے حرمتی کی گئی۔
اس واقعے کی سیاسی جماعتوں، سماجی و تاجر انجمنوں اور سول سوسائٹی نے مذمت کی تھی جبکہ کئی عسکری تنظیموں نے بھی واقعے کے خلاف برہمی کا اظہار کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ریاست میں داعش کا کوئی وجود ہے نہ اس کی ضرورت ہے۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ کشمیر میں حقِ خودارادیت کے حصول کے لئے جاری تحریک خالصتاً کشمیری عوام کی اپنی تحریک ہے اور اس کا کوئی بین الاقوامی ایجنڈا نہیں ہے۔ لہٰذا داعش جیسی تنظیموں کا یہاں کوئی وجود ہے اور نہ اسے کشمیر کے آزادی پسند عوام قبول کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت کا رُخ بدلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن ہم انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
جامع مسجد میں پیش آنے والے واقعے کے خلاف سرینگر میں ایک احتجاجی جلوس بھی نکالا گیا تھا جس کی قیادت سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کی تھی۔
چار مہینے کی خاموشی کے بعد داعش سے وابستگی دکھانے والے نقاب پوش نوجوان سرینگر کی سڑکوں پر پھر نمودار ہوئے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ شوپیان میں داعش سے وابستہ عسکریت پسند کی ہلاکت اور اُسی روز سرینگر میں پیش آنے والے واقعے کے پس منظر میں اس تنظیم کے بھارت میں ایک ’’صوبہ‘‘ قائم کرنے کے دعوے کو یکسر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
تجزیہ نگار اور سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں شعبہ قانون اور بین الاقوامی مطالعے کے پروفیسر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملے کے دو پہلو ہیں۔ یا تو کوئی بڑی طاقت کشمیر میں داعش کی موجودگی کا ہوا کھڑا کر کے اپنی مداخلت کیلئے راہ ہموار کرنا چاہتی ہے یا پھر بھارت دنیا پر یہ بارو کرانا چاہتا ہے کہ ریاست میں جاری تحریکِ مزاحمت داعش کے نظریے سے مطابقت رکھتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح وہ اسے دبانے کیلئے کی جا رہی فوجی کارروائیوں کیلئے جواز پیدا کرنا چاہتی ہے۔ میری نظر میں کشمیر میں داعش کی موجودگی کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ اسے یہاں تسلیم کیا جائے گا۔
اس دوران پیر کو وادئ کشمیر میں ایک کمسن بچی کے ساتھ مبینہ طور پر کی گئی جنسی زیادتی کے واقعے کے خلاف جزوی ہڑتال کی گئی اور کئی مقامات پر مظاہرے کئے گئے۔
مظاہروں میں طلبہ اور طالبات نے بھی حصہ لیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے شمالی ضلع بانڈی پور کے علاقے سمبل میں تین سالہ بچی کے ساتھ مبینہ طور پر کی گئی زیادتی کے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کے لئے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔
واقعے کے خلاف وادئ کشمیر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پیر کو مسلسل دوسرے دن بھی چند مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس نے مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے نوجوانوں پر اشک آور گیس چھوڑی اور لاٹھی چارج کیا جس سے ایک درجن سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ زخمیوں میں سے ایک شخص ارشد احمد ڈار کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق وہ آنسو گیس کا شیل سر میں لگنے سے شدید زخمی ہوا۔