پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ نے پارلیمنٹ کی عمارت سے کچھ فاصلے پر دھرنے پہ بیٹھے مظاہرین کو علاقہ خالی کرنے کے لیے دو گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔
اگرچہ ’ڈیڈ لائن‘ تقریبا ختم ہو چکی ہے لیکن تاحال کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔
تاہم پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور رینجرز کے اضافی دستے دھرنے کی جگہ کے اردگرد پہنچ گئے ہیں اور بظاہر آپریشن کی تیاری مکمل نظر آتی ہے۔
بعض مذہبی رہنماوں بشمول رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے ایک بیان میں حکومت سے کہا ہے کہ وہ احتجاجی مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔
’’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دھرنا دینے والے پرجوش مذہبی کارکنوں کے جذبات کا خیال رکھا جائے اور حکومت کی جانب سے ہر ایسی کارروائی سے اجتناب کیا جائے جس سے اشتعال پیدا ہو، کسی بھی حادثے کی صورت میں ملک بھر کے علمائے اہل سنت کا لاتعلق رہنا نا ممکن ہو جائے گا۔‘‘
گورنر پنجاب کے قتل پر سزائے موت پانے والے ممتاز قادری کے ہزاروں حامی اتوار کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب پہنچ گئے تھے۔
اس دوران اُن کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئی تھیں جب کہ مظاہرین نے میٹرو بس اسٹیشنز پر توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔
گزشتہ تین روز سے مظاہرین کا دھرنا جاری ہے لیکن مظاہرین کی تعداد اب کم ہو کر لگ بھگ ایک ہزار رہ گئی ہے۔
احتجاج کے دوران اسلام آباد کے بعض حصوں میں موبائل فون سروس بھی معطل ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کو جھڑپوں کے بعد حکومت نے وفاقی دارالحکومت کے حساس علاقے ریڈ زون میں فوج تعینات کر دی تھی۔